April 25, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 41

وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ

اور جو شخص اپنے اُوپر ظلم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے

آیت ۴۱:  وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ: ’’اور جو کوئی بدلہ لے اس کے بعد کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو تو ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔‘‘

        سورۃ النساء کی آیت ۱۴۸ میں یہی اصول ان الفاظ میں بیان ہوا ہے (لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ) یعنی اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں کہ کوئی شخص کوئی بری بات بلند آواز سے کہے مگر مظلوم اس سے مستثنیٰ ہے، بدلہ لینا بہرحال مظلوم کا حق ہے۔ اگر وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا بدلہ ہی لینا چاہتا ہے تو اسے معاف کرنے پر مجبور نہیں کیاجا سکتا۔ دیکھئے ان آیات کا اسلوب اور انداز سورۂ حٰمٓ السجدۃ کی مذکورہ آیات کے اسلوب سے کس قدر مختلف ہے۔ اسی ’’تضاد‘‘ کی بنیاد پر پروفیسر منٹگمری واٹ (۱۹۰۹ء۔ ۲۰۰۶ء) نے Muhammad at Mecca اور Muhammad at Medina دو کتابیں لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مکہ کے اندر جب محمد عربی کی ایک حکمت عملی ناکام ہو گئی توانہوں نے مدینہ جا کر اپنا لائحہ عمل بالکل ہی تبدیل کر لیا۔ اس بے چارے ’’دانشور‘‘کی نظریں تعصب کی عینک کے باعث حضور کی تحریک کے دو مراحل کے فرق کو نہیں دیکھ سکیں۔ وہ اس سادہ سی بات کو بھی نہیں سمجھ سکا کہ پہلا مرحلہ تیاری کا مرحلہ تھاجبکہ دوسرا عملی جدوجہد کا۔

        مکی دور میں ’’ہاتھ  بندھے رکھنے‘‘ کا حکم دراصل ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (strategy) کا حصہ تھا، جس کے تحت جاں نثارانِ توحید کو صبر و مصابرت کی بھٹی میں سے گزارنا مقصود تھا تا کہ میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے ان کے جذبے ضبط و برداشت کی آنچ سہہ سہہ کر پختہ اور ان کے دست و بازو آزمائش و ابتلا کی سختیاں جھیلنے کے عادی ہو جائیں۔ اقبال ؔنے اس حکمت عملی کو اس طرح بیان کیا ہے: ؎

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی     اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی!

        مدنی دور میں جب ’’بندھے ہوئے ہاتھ‘‘ کھول دیے گئے تو حالات یکسر بدل گئے۔ چنانچہ میدانِ بدر میں جب حضرت بلال کا سامنا اپنے سابق آقا اُمیہ ّبن خلف سے ہوا تو چشم ِفلک کوئی اور ہی منظر دیکھ رہی تھی۔ اب اُمیہ کی گردن کا مقدر نشانہ بننا تھا جبکہ ’’اقدام‘‘ کا اختیار تیغ بلالیؓ کے پاس تھا۔ 

UP
X
<>