April 20, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 52

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ وَلَكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اور اسی طرح ہم نے تمہارے پاس اپنے حکم سے ایک رُوح بطور وحی نازل کی ہے۔ تمہیں اس سے پہلے نہ یہ معلوم تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے، اور نہ یہ کہ ایما ن کیا ہے، لیکن ہم نے اس (قرآن) کو ایک نور بنایا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ، ہدایت دیتے ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تم لوگوں کو وہ سیدھا راستہ دکھا رہے ہو

آیت ۵۲:  وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا: ’’اور (اے نبی !) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے۔‘‘

        یہاں پر قرآن کو رُوحًا مِّن اَمْرِنَا کہا گیا ہے۔

         اگلی آیت میں محمد ٌرسول اللہ کے ایمان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپؐ کو ایمان کہاں سے ملا؟ اس مضمون کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کا اہم ترین مقام ہے۔ حضور کی ذات کی مثال ایمان کی دہکتی ہوئی بھٹی کی سی ہے کہ جو بھی آپؐ کے قریب آ گیا ایمان کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ البتہ جس طرح ایک خراب موصل (bad conductor) بھٹی کے سامنے ہونے کے باوجود بھی ’’اتصالِ حرارت‘‘کے عمل سے محروم رہتا ہے اسی طرح بعض بد نصیب انسان (منافقین) آپؐ کی قربت میں رہنے کے باوجود بھی ایمان سے محروم رہے۔

         مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ: ’’ (اے نبی !) آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے‘‘

        آپ نے دنیا کے معروف اور روایتی طریقے سے نہ تو تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی آپؐ نے تورات یا کوئی اور کتاب پڑھی تھی۔ اس لحاظ سے آپؐ ’’ اُمییّن‘‘میں سے تھے۔

         وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا: ’’لیکن اس (قرآن) کو ہم نے ایسا نور بنایا ہے جس کے ذریعے سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔‘‘

        یعنی قرآن کے ذریعے سے حضور کے ایمان نے ایک حقیقی اور واقعی شکل اختیار کر لی۔ فطرتِ انسانی کے اندر موجود ایمان کی خفتہ (dormant) کیفیت کے بارے میں اس مطالعہ قرآن کے دوران قبل ازیں متعدد بار گفتگو ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے روحِ محمدی میں تمام انسانی ارواح سے زیادہ قوی ایمان موجود تھا۔ آپؐ کی روح کے ایمان کی کیفیت سورۃ النور کے پانچویں رکوع میں بیان کی گئی مثال کے مطابق ’’نورٌ عَلٰی نُوْرٍ‘‘ کی سی تھی۔ ہمارے علماء نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ آپؐ کی روح کے اندر اجمالی ایمان پہلے سے موجود تھا، جبکہ آپؐ کو تفصیلی ایمان قرآن سے ملا۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ آپؐ کی روح مبارک کے اندر بالقوۃ (potentioal) ایمان پہلے سے موجود تھا جو خفتہ (dormant) حالت میں تھا۔ قرآن نے اس ایمان کو فعال (active) کر دیا۔ یعنی قرآن کے نور سے آپؐ کا ایمان جگمگا اٹھا اور آپؐ کی ذات کے اندر’’نورٌ عَلٰی نُوْرٍ‘‘ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد آپؐ بنی نوعِ انسان کو راہِ ہدایت دکھانے کے لیے مینارۂ نور بن گئے۔

         وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ: ’’اور آپؐ یقینا سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘

        جیسے کہ ساحل پر موجود روشنی کا مینار جہازوں کو بندرگارہ تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ 

UP
X
<>