April 20, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 7

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لا رَيْبَ فِيهِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ

اور اسی طرح ہم نے یہ عربی قرآن تم پر وحی کے ذریعے بھیجا ہے، تاکہ تم مرکزی بستی (مکہ) اور اُس کے اردگرد والوں کو اُس دن سے خبردار کرو جس میں سب کو جمع کیا جائے گا، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ایک گروہ جنت میں جائے گا، اور ایک گروہ بھڑکتی ہوئی آگ میں

آیت ۷:  وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا: ’’اور اسی طرح ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف یہ قرآن عربی‘‘

        آیت ۳ کی طرح یہاں پر بھی وحی کے ذکر کے ساتھ لفظ کَذٰلِکَ آیا ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں کی جاچکی ہے۔

         لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا: ’’تا کہ آپ خبردار کر دیں بستیوں کے مرکز اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو‘‘

        بالکل یہی الفاظ سورۃ الانعام کی آیت ۹۲ میں بھی آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی قوم پر اتمامِ حجت کرنے کا یہ وہی طریقہ اور اصول ہے جس کا ذکر سورۃ القصص کی آیت ۵۹ میں اس طرح ہوا ہے (وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا) ’’اور نہیں ہے آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا، جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجتا‘‘۔ جزیرہ نمائے عرب کی ’’اُمّ القری‘‘یعنی مرکزی بستی چونکہ مکہ ہے اس لیے مذکورہ اصول کے تحت اس مرکزی بستی میں نبی آخر الزماں کو مبعوث فرمایا گیا۔ بلکہ ایک اعتبار سے تو مکہ پوری دنیا کا ’’اُمّ القریٰ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ حَوْلَ کے معنی اردگرد کے ہیں اور’’ اردگرد‘‘ کی حدود کسی خاص نقطے تک محدود نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ ایک مرکزی مقام کے ارد گرد کے دائرے کو اگر بڑھاتے جائیں تو یہ دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے سورۃ الانعام کی آیت ۹۲ کے تحت بھی گزر چکی ہے۔

         وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ: ’’اور آپ خبردار کر دیں اُس جمع ہونے والے دن سے جس میں کوئی شک نہیں۔‘‘

         فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ: ’’ (اُس دن) ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔‘‘

UP
X
<>