April 25, 2024

قرآن کریم > الدخان >sorah 44 ayat 10

فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِينٍ

لہٰذا اُس دن کا انتظار کرو جب آسمان ایک واضح دُھواں لے کر نمودار ہوگا

آیت ۱۰:  فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ: ’’تو آپ انتظار کیجیے اُس دن کا جس دن آسمان لائے گا واضح دھواں۔‘‘

          اس آیت کے مفہوم کے بارے میں مفسرین ّکے درمیان شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت علی‘ ابن عمر‘ ابن عباس اور ابوسعید خدری jاور حسن بصریؒ جیسے اکابرکی رائے ہے کہ اس سے وہ دھواں مراد ہے جو قیامت سے پہلے نمودار ہو گا۔ ایک حدیث میں حضور نے قیامت سے فوراً پہلے نمودار ہونے والی جن دس نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں دھویں (دخان) کا ذکر بھی ہے۔ اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن مسعود کی بڑی شدت کے ساتھ یہ رائے ہے کہ حضور کی نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں جو قحط پڑا تھا اس آیت میں اس قحط کے بارے میں پیشگی خبردار کیا گیا ہے۔ صحرائی علاقوں میں اگر طویل مدت تک بارش نہ ہو تو پوری فضا گرد سے اَٹ جاتی ہے اور آسمان کی طرف دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے دھویں کے بادل چھا رہے ہیں۔ قحط کا یہ عذاب دراصل اسی قانونِ خداوندی کے تحت اہل مکہ پر مسلط ہوا تھا جس کا ذکر سورۃ الانعام میں اس طرح ہوا ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ: ’’اور ہم نے بھیجا ہے (دوسری) امتوں کی طرف بھی آپؐ سے قبل (رسولوں کو) ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے شاید کہ وہ عاجزی کریں‘‘ ۔ تابعین میں سے مجاہد‘ قتادہ‘ ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ بہر حال میں نے یہاں جلیل القدر صحابہؓ کی آراء بیان کر دی ہیں۔ ان صحابہؓ کے عظیم مراتب کے پیش نظر ان آراء میں محاکمہ کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ 

UP
X
<>