April 24, 2024

قرآن کریم > الدخان >sorah 44 ayat 3

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

کہ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اُتارا ہے، (کیونکہ) ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے

آیت ۳:  اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ: ’’یقینا ہم نے اس کو نازل کیا ہے ایک مبارک رات میں‘‘

          یہ مضمون سورۃ القدر میں واضح تر انداز میں آیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ: کہ ہم نے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ میں نازل فرمایا۔ چونکہ قرآن مجید میں عام طور پر اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ آئے ہیں اس لیے اس خاص رات کا ذکر بھی دو مرتبہ آیا ہے۔ وہاں ’’لیلۃ القدر‘‘ کے نام سے اوریہاں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ کے نام سے۔

           اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ: ’’یقینا ہم خبردار کر دینے والے ہیں۔‘‘

          رسالت اور انزالِ کتب کا اصل مقصد لوگوں کا انذار (خبردار کرنا‘ آگاہ کرنا) ہے۔ جیسے سورۃ المدثر میں حضور کو حکم دیا گیا: یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ  قُمْ فَاَنْذِرْ: ’’اے چادر اوڑھنے والے‘ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے‘‘۔ دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے۔ یہ تو اصل ’’کتابِ زندگی‘‘ کے دیباچے کی مانند ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ چنانچہ اسی حوالے سے لوگوں کو خبردار (warn) کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل ؑاور الہامی کتب کے ذریعے ہدایت کے ایک سلسلے کا اہتمام فرمایا تا کہ ان میں اصل اور ہمیشہ کی زندگی کو بہتر بنانے کا شعور پیداہو اور وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں: وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ  لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ: ( العنکبوت) ’’یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں‘ جبکہ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘ 

UP
X
<>