April 19, 2024

قرآن کریم > الدخان >sorah 44 ayat 32

وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

اور ہم نے اُن کو اپنے علم کے مطابق دُنیا جہان والوں پر فوقیت دی

آیت ۳۲:  وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ: ’’اور ہم نے علم رکھنے کے باوجود اُن (بنی اسرائیل) کو اقوامِ عالم پر ترجیح دی تھی۔‘‘

          بنی اسرائیل کی تمام خرابیاں اور کوتاہیاں ہمارے علم میں تھیں۔ اس کے باوجود ہم نے دنیا کی تمام اقوام پر انہیں فضیلت دے کر برگزیدہ کیاتھا۔ بنی اسرائیل کی اس فضیلت کا ذکر قرآن حکیم میں بار بار آیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں یہ آیت دو مرتبہ (۴۷ اور ۱۲۲) آئی ہے: یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ: ’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی جہان والوں پر۔‘‘

          قرآن کریم (خصوصی طور پر سورۃ البقرۃ) میں بنی اسرائیل کے بڑے بڑے جرائم بھی گنوائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا سوادِ اعظم مسلسل توحید سے چمٹا رہا تھا۔ اگرچہ گاہے بگاہے ان میں مشرکانہ نظریات و اوہام بھی پنپتے رہے لیکن ان کی اکثریت بہر حال توحید پر قائم رہی۔ مثلاًایک زمانے میں ان کے درمیان ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا تھا جو حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا لیکن اس دور میں بھی مجموعی طور پر ان میں سے اکثر لوگ توحید پرست ہی رہے۔ 

UP
X
<>