April 25, 2024

قرآن کریم > الجاثية >sorah 45 ayat 32

وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلاَّ ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ

اور جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے، اور قیامت وہ حقیقت ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے، تو تم یہ کہتے تھے کہ : ’’ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیاہوتی ہے؟ اُس کے بارے میں ہم جو کچھ خیال کرتے ہیں ، بس ایک گمان سا ہوتا ہے، اور ہمیں یقین بالکل نہیں ہے۔‘‘

آیت ۳۲:  وَاِذَا قِیْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ لَا رَیْبَ فِیْہَا: ’’اور جب کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ سچ ہے اور قیامت آنے میں کوئی شک نہیں‘‘

           قُلْتُمْ مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَۃُ : ’’تو تم کہتے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہوتی ہے‘‘

          السّاعۃ  (قیامت کی موعودہ گھڑی) کا ذکر سن کر تم کہا کرتے تھے کہ ہم کسی ساعت واعت کو نہیں جانتے۔ تمہارے یہ گستاخانہ جملے ہمارے پاس ریکارڈ میں موجود ہیں۔

           اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا: ’’ہاں ہمیں ایک گمان سا تو ہوتا ہے‘‘

          لیکن کبھی کبھی تم قیامت کا ذکر سن کر یوں بھی کہا کرتے تھے کہ ہاں قیامت کے قائم ہونے اور آخرت کی زندگی کے بارے میں ہمیں گمان سا تو ہوتا ہے‘ ایک خیال سا تو آتا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ نیکی و بدی کے فرق اور سزا و جزا کی منطق کو تم لوگ خوب سمجھتے تھے۔ تم جانتے تھے کہ پیشہ ور مجرم اور نیک لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ کبھی کسی مظلوم کی بے بسی کو دیکھ کر تمہارے ذہن میں یہ سوال بھی چپک جاتا تھا کہ اس بے چارے کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے اور کبھی کبھی تمہارا ضمیر تمہیں یہ بھی یاد دلایا کرتا تھا کہ ظالموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے کوئی موثر اور قطعی نظام تو ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن پھر دُنیوی مفادات کی یلغار کو اپنے سامنے پا کر ایسی ہر سوچ کو مفروضہ قرار دے کر تم جھٹک دیا کرتے تھے۔

           وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ: ’’اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘

          یہاں پر ‘‘یقین‘‘  کا لفظ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ دراصل ‘‘آخرت‘‘  کو ایک رسمی نظریے کے طور پر تسلیم کر لینا کافی نہیں۔ اس ‘‘ایمان‘‘ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کے بارے میں دل میں گہرا یقین ہونا بہت ضروری ہے۔ جب تک دل میں بعث بعد الموت اور آخرت کا پختہ یقین نہیں ہو گا انسان کا کردار درست نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کے حوالے سے جہاں غیب اور الہامی کتب پر ‘‘ایمان لانے‘‘ کی شرط کا ذکر ہے وہاں آخرت کے بارے میں ‘‘یقین رکھنے‘‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے:  وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں دل کے اندر گہرا یقین رکھے بغیر مقامِ تقویٰ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ((وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ)) کے الفاظ میں ہمیں اپنی باطنی کیفیت کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ ہم موروثی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک عقیدے کے درجے میں تو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘ لیکن کیا دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کا پختہ یقین ہمارے دلوں میں موجود ہے؟ اس سوال کا جواب ہم میں سے ہر شخص کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں جھانک کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یقین کی مطلوبہ کیفیت تک کیسے پہنچا جائے تو اس کا جواب ہمیں سورۃ الحدید کے مطالعہ کے دوران ملے گا۔

UP
X
<>