April 19, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 11

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ 

اور جن لوگوں نے کفر اَپنا لیا ہے، وہ ایمان لانے والوں کے بارے میں یو ں کہتے ہیں کہ : ’’ اگر یہ (ایمان لانا) کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اس بارے میں ہم سے سبقت نہ لے جاسکتے۔‘‘ اور جب ان کافروں نے اس سے خود ہدایت حاصل نہیں کی تو وہ تو یہی کہیں گے کہ یہ وہی پرانے زمانے کا جھوٹ ہے

آیت ۱۱  وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ: ’’اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی‘ ان لوگوں کے بارے میں جو ایمان لائے کہ اگر یہ (قرآن) کوئی خیر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔‘‘

          یہ سردارانِ قریش کے موقف کا حوالہ ہے کہ ہم بڑے ہیں‘ دانشور ہیں اور ہر اعتبار سے معاشرے کے سرکردہ لوگ ہیں۔ جب ہم اس دین کی طرف مائل نہیں ہوئے اور ہمیں اس قرآن میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بھلائی کی کوئی بات ہے ہی نہیں‘ ورنہ یہ غریب غرباء اور گھٹیا لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ مکہ میں رسول اللہ پر ایمان لانے والوں میں اگرچہ حضرت عثمان بن عفان‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے لوگ بھی تھے‘ جن کا تعلق اونچے گھرانوں سے تھا‘ مگر ابتدا میں زیادہ تر نادار اور مزدور لوگ ہی حضور پر ایمان لائے تھے‘ جن میں کوئی غلام بھی تھے‘ اور شروع شروع میں یہی لوگ زیادہ تر آپ کے اردگرد موجود ہوتے تھے۔

          چنانچہ جس طرح حضرت نوح کی قوم کے سرداروں کو اعتراض تھا کہ آپ کے پیروکار نچلے طبقے کے لوگ ہیں (ہود: ۲۲) اسی طرح مکہ کے سرداروں کو بھی نادار اور غلام اہل ایمان کی موجود گی میں حضور کی محفل میں بیٹھنا گوارا نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ان مزدوروں ‘ غلاموں اور کمتر حیثیت کے لوگوں کے درمیان آکر بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں۔ ہاں ان لوگوں کو اگر آپ اپنی محفل سے اٹھا دیں تو پھر ہم آپ کے پاس آ کر آپ کی بات سننے پر غور کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنین ِصادقین کے بارے میں حضور سے فرمایا: وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ  فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ: ’’اور مت دھتکارئیے آپ ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح وشام اور اُس کی رضا کے طالب ہیں۔ آپ کے ذمے ان کے حساب میں سے کچھ نہیں ہے او ر نہ آپ کے حساب میں سے ان کے ذمے کچھ ہے‘ تو اگر (بالفرض) آپ انہیں دور کریں گے تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

          وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ہٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ: ’’اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن)  کے ذریعے سے ہدایت نہیں پائی تو اب کہیں گے کہ یہ تو گھڑی ہوئی پرانی چیز ہے۔

UP
X
<>