April 25, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 13

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ

یقینا جن لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ : ’’ ہمارا پروردگار اﷲ ہے۔‘‘ پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو اُن پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے

آیت ۱۳  اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا: ’’بے شک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے‘‘

          نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورۂ  حٰمٓ السجدۃ کی آیت ۳۰ میں پڑھ آئے ہیں۔ وہاں بھی میں نے عرض کیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ اس ’’استقامت‘‘ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ اس ’’استقامت‘‘ میں ایک ’’قیامت‘‘ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا‘ اسی پر توکل کرنا‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن داؤ پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورۂ حٰمٓ السجدۃ (آیت ۳۰) کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبد اللہ کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں  کوئی ایک بات ایسی بتا دیجیے جسے میں پلے باندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہو جائے۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا: ((قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ)) ’’کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر‘ پھر اس پر جم جاؤ!‘‘ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعاؤں کا سننے والا ہے‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندۂ مؤمن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورۃ الانعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے: قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: ’آپ کہیے: میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

          فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ: ’’تو ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔‘‘

           ملاحظہ کیجیے سورۂ یونس کی آیت ۶۲ میں ’’اولیاء اللہ‘‘ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں: اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ: ’’آگاہ ہو جاؤ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہو گئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

UP
X
<>