April 25, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 21

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتْ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

اور قومِ عاد کے بھائی (حضرت ہود علیہ السلام) کا تذکرہ کرو، جب اُنہوں نے اپنی قوم کو خم دار ٹیلوں کی سر زمین میں خبردار کیا تھا۔ اور ایسے خبردار کرنے والے اُن سے پہلے بھی گذر چکے ہیں ، اور اُن کے بعد بھی۔ کہ : ’’ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تم پر ایک زبردست دن کا اندیشہ ہے۔‘‘

آیت ۲۱ وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ: ’’اور ذرا تذکرہ کیجیے قومِ عاد کے بھائی (ہودؑ) کا‘ جب اُس نے خبردار کیا اپنی قوم کو احقاف میں‘‘

          جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی ساحلی علاقے کو پرانے زمانے میں ’’احقاف‘‘ کہا جاتا تھا جہاں قومِ عاد آباد تھی‘ اب یہ علاقہ لق و دق صحرا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

          وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ: ’’اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی بہت سے خبردار کرنے والے گزر چکے تھے ‘‘

          یعنی ایسے خبردار کرنے والے اُس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے   --- اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے بارے میں قبل ازیں بھی کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کسی قوم میں پہلے بہت سے انبیاء بھیجے جاتے تھے اور پھر آخر میں اتمامِ حجت کے لیے ایک رسول ؑکو مبعوث کیا جاتا تھا۔ وہ سب کے سب ایک ہی دعوت دیتے تھے۔

          اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ: ’’کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اللہ کے!‘‘

          اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ: ’’مجھے اندیشہ ہے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا۔‘‘

UP
X
<>