April 25, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

اور (اے پیغمبر !) یاد کرو جب ہم نے جنات میں سے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ، چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو اُنہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ : ’’ خاموش ہوجاؤ‘‘ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ اپنی قوم کے پاس اُنہیں خبردار کرتے ہوئے واپس پہنچے

آیت ۲۹  وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ: ’’اور (اے نبی!) جب ہم نے آپ کی طرف متوجہ کر دیا جنات کی ایک جماعت کو کہ وہ قرآن سننے لگے۔‘‘

          فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا: ’’تو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا: چپ ہو جائو!‘‘

          تلاوتِ قرآن کی سماعت کے بارے میں خود قرآن کا بھی یہی حکم ہے: وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ: (الاعراف) ’’اور جب قرآن پڑھا جار ہا ہو تو اسے پوری توجہ کے ساتھ  سنا کرو اور خاموش رہا کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبعاً نیک اور شریف قسم کے ِجنات تھے۔ اگلی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ  کے ماننے والے اہل کتاب جن تھے۔ چنانچہ وہ فوراً ہی اللہ کے کلام کو پہچان گئے اور اس کو پورے ادب و احترم سے سننے لگے۔

          فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّــوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ: ’’پھر جب (قراءت) ختم ہوئی تو وہ پلٹے اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر۔‘‘

UP
X
<>