April 20, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 30

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ

اُنہوں نے کہا : ’’ اے ہماری قوم کے لوگو ! یقین جانو ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، حق بات اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے

آیت ۳۰   قَالُوْا یٰــقَوْمَنَــآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی: ’’انہوں نے کہا: اے ہماری قوم کے لوگو! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰؑ کے بعد نازل ہوئی ہے‘‘

          گویا وہ ِجنات حضرت موسیٰ کے امتی تھے۔  یہاں پر جنات کے اس قول کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ تورات کے بعد جو ’’کتاب‘‘ نازل ہوئی وہ قرآن ہے۔ اگرچہ ہم عرفِ عام میں انجیل کو بھی کتاب کہہ دیتے ہیں لیکن وہ اصطلاحی مفہوم میں باقاعدہ ’’کتاب‘‘ نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس میں شریعت نہیں تھی ۔ دراصل لفظ ’’کتاب‘‘ میں لغوی اعتبار سے شریعت (قوانین ‘احکام‘ فرائض وغیرہ) کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں احکام کی فرضیت کا ذکر اکثر ’’کتب‘‘ کے مشتقات کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیت ۱۰۳ میں نماز کے اوقات کے حوالے سے ’’کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ پھر سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳۵ میں ’’کتاب‘‘ کا لفظ ’’عدت ‘‘ کے مترادف کے طور پر آیا ہے : حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ:۔ اور ’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ‘‘ کے الفاظ تو قرآن میں بہت تکرار سے آئے ہیں۔

          ظاہر ہے مذکورہ جنات اگر حضرت موسیٰ کے اُمتی تھے تو وہ لازماً انجیل کو بھی جانتے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کا ذکر کرنے کے بجائے صرف حضرت موسیٰ  کا حوالہ دیا کہ آپؑ کے بعد اب ایک کتاب نازل ہوئی ہے جس کی تلاوت ہم سن کرا ٓئے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے لفظ ’’کتاب‘‘ کا اطلاق تورات پر ہوتا ہے یا پھر قرآن پر‘ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شریعت ِموسویؑ کے بعد جو شریعت آئی ہے وہ شریعت ِمحمدیؐ ہے۔

          مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ: ’’ تصدیق کرتی ہوئی اُس کی جواس کے سامنے موجود ہے (یعنی تورات)‘ راہنمائی کرتی ہے حق کی طرف اور ایک سیدھے راستے کی طرف۔‘‘

          ’’طریق مستقیم‘‘ کا بھی وہی مفہوم ہے جو ’’صراطِ مستقیم‘‘ کا ہے۔ طریق اور صراط دونوں کے لغوی معنی راستے کے ہیں۔ اسی طرح لفظ سبیل بھی راستے کے معنی دیتا ہے اور ’’سواء السبیل‘‘ کے معنی بھی سیدھے راستے کے ہیں۔

UP
X
<>