April 19, 2024

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 35

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

غرض (اے پیغمبر !) تم اُسی طرح صبر کئے جاؤ جیسے اُولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے، اُس دن (انہیں ) یو ں محسوس ہوگا جیسے وہ (دنیا میں ) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ ہے وہ پیغام جو پہنچادیا گیا ہے ! اب برباد تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں

آیت ۳۵  فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ: ’’تو (اے محمد!) آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول ؑصبر کرتے رہے ہیں‘‘

          ’’اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ‘‘ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ان سے مراد وہ پانچ پیغمبر ہیں جن کا ذکر قبل ازیں سورۃ الشوریٰ کی اس آیت میں ہوا ہے: شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی…: (آیت۱۳) ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے دین میں اُس نے وہی کچھ  مقرر کیا ہے جس کی وصیت اُس نے نوحؑ کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد!) آپ کی طر ف کی ہے اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم ؑ کو اور موسیٰؑ کو اور عیسیٰؑ کو…‘‘ گویا حضرت محمد  کے علاوہ حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام  کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ البتہ بعض علماء حضرت ہود اور حضرت صالح کو بھی ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے نزدیک ’’اولوالعزمِ منَ الرسل‘‘ کی تعداد سات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں ہر پیغمبر کی شخصیت کا کوئی خاص پہلو امتیازی شان کا حامل نظر آتا ہے۔ مثلاً دعوت و تبلیغ کے میدان میں عزم اور استقامت کے لحاظ سے حضرت نوحd سب سے آگے ہیں۔ آپؑ نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دعوت دی اور ان کی طرف سے ہر قسم کی مخالفت اور تکلیف کو برداشت کیا:فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا: (العنکبوت:۱۴)۔ اسی طرح ذاتی تکلیف اور بیماری پر صبر کرنے کے اعتبار سے حضرت ایوب کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اس لحاظ سے ’’صبر ِایوبؑ ‘‘ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے۔

          وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ: ’’اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے!‘‘

          اس سے پہلے سورۃ الزخرف کے اختتام پر بھی ایسی ہی ہدایت دی گئی ہے: فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ: ’’تو (اے نبی!) آپ ان سے در گزر کیجیے اور کہیے سلام ہے‘ تو بہت جلد یہ لوگ جان جائیں گے‘‘۔پھر سورۃ الدخان کے آخر میں بھی فرمایا گیا ہے: فَارْتَقِبْ اِنَّہُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ: ’’تو آپؐ انتظار کیجیے‘ یقینا وہ بھی انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ ایک ہی گروپ کی ان سورتوں میں ایک جیسے الفاظ اور مفہوم کی حامل ان آیات کی تکرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سورتوں کے نزول کے زمانے میں مکہ کے حالات اہل ایمان کے لیے واقعتابہت سخت تھے اور ان کے لیے ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان حالات میں ممکن ہے کبھی حضور کے دل میں بھی یہ خیال آتا ہو ‘لیکن اہل ایمان کے ذہنوں میں ایسے سوالات کا آنا بالکل قرین ِقیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دشمنانِ حق کوہم پر ظلم و ستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ آخر کیوں دے رکھی ہے؟ ان لوگوں پر پہلی نا فرمان قوموں کی طرح عذاب کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا؟ بلالؓ پر تشدد کرتے ہوئے اُمیہ ّبن خلف کے ہاتھ کیوں شل نہیں ہو جاتے؟ اللہ تعالیٰ تو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے۔ وہ اپنے ان باغیوں کو اتنی ڈھیل کیوں دیے جارہا ہے؟ چنانچہ اس انتہائی نازک صورت حال میں حضور کو مخاطب کر کے گویا اہل ایمان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین ِمکہ ّپر عذاب کا وقت ابھی نہیں آیا‘ ابھی اللہ کی مشیت میں ان لوگوں کو کچھ اور مہلت دینا مقصود ہے۔ لہٰذا تم لوگ صبر سے کام لو اور کچھ دیر مزید انتظا رکرو!

          کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ: ’’جس دن یہ لوگ دیکھیں گے اس (عذاب) کو جس کی انہیں وعید سنائی جا رہی ہے (تو ایسے محسوس کریں گے) گویا نہیں رہے تھے (دنیا میں) مگر دن کی ایک گھڑی۔‘‘

          بَلٰغٌ فَہَلْ یُہْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ: ’’یہ پہنچا دینا ہے! کیا سوائے نافرمان لوگوں کے کوئی اور بھی ہلاک کیا جائے گا؟‘‘

          یعنی ہمارے رسولؐ کی ذمہ داری تو ان لوگوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچا کر حجت قائم کر دینے کی حد تک ہے‘ جو انہوں نے ادا کر دی  --- اب ہلاک تو وہی ہوں گے جنہوں نے اس دعوتِ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔

UP
X
<>