April 25, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 38

هَاأَنتُمْ هَؤُلاء تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاء وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ 

دیکھو ! تم ایسے ہو کہ تمہیں اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں ، اور جو شخص بھی بخل کرتا ہے، وہ خود اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے۔ اور اﷲ بے نیاز ہے، اور تم ہو جو محتاج ہو۔ اور اگر تم منہ موڑوگے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے

آیت ۳۸ ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ: ’’تم وہ لوگ ہو کہ تمہیں بلایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

          فَمِنْکُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ: ’’پس تم میں سے کوئی وہ بھی ہے جو بخل سے کام لیتا ہے ‘اور جو کوئی بھی بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے۔‘‘

          اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل ترغیب کے باوجود جو لوگ انفاق فی سبیل اللہ سے جی چراتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاملے میں بخل کر کے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور نقصان بھی ایسا جس کی تلافی ممکن نہیں۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر آخرت کے دائمی اور ابدی اجر و ثواب سے خود کو محروم  کر لینا اور ایک کے بدلے سات سو ملنے کے وعدۂ خداوندی کو لائق التفات نہ سمجھنا کوئی معمولی نقصان تو نہیں ہے۔

          وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ: ’’اور اللہ غنی ہے اور محتاج تو تم ہی ہو۔‘‘

          اللہ تعالیٰ تو غنی اور بے نیاز ہے‘ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں‘ وہ تو صرف تمہارے امتحان کے لیے تم سے کہتا ہے کہ مجھے قرض دو۔ اور اگر وہ تمہارے صدقات کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ: (التوبہ : ۱۰۴) تو ایسا وہ محض تمہارے اعزاز و اکرام کے لیے کرتا ہے۔

          وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ: ’’اور اگر تم پیٹھ پھیر لو گے تو وہ تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئے گا‘ پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔‘‘

          یہ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔ اس حکم کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوا ہوگا جنہوں نے اللہ کے رسول کی معیت میں رہتے ہوئے منافقت کی بنا پر پیٹھ موڑ لی تھی۔ ظاہر ہے وہ لوگ جب اس آیت کے مصداق بنے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں راندہ درگاہ کر دیا اور ان کی جگہ نبی اکرم  کے لیے سچے ’’جاں نثار‘‘ اہل ایمان ساتھی فراہم کر دیے۔ لیکن اس کے بعد اس آیت کے مخاطب ومصداق دراصل ’’اہل عرب‘‘ ہیں جو اُمت مسلمہ کے مرکزہ (nucleus) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ حضور کی بعثتِ اصلی یا بعثت خصوصی ’’امیین‘‘ یعنی بنو اسماعیل اور ان کے تابع مشرکین عرب کے لیے تھی۔ بنیادی طور پر تو وہی لوگ تھے جن کے سپرد حضور کا مشن اس واضح حکم کے ساتھ ہوا تھا: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا: (البقرۃ:۱۴۳) ’’(اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت وَسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں‘‘۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں براہِ راست خطاب دراصل حضور کے ’’اہل عرب‘‘ اُمتیوں سے ہے کہ اگر تم نے اس مشن سے منہ موڑ لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو اس منصب پر فائز کر دے گا۔

          میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ظہور بتمام و بکمال تیرہویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب ہلاکو خان کے ذریعے سلطنت ِعباسیہ کو تاخت و تاراج کر دیا گیا۔ اس ہنگامے میں تاتاریوں کے ہاتھوں بلامبالغہ کروڑوں مسلمان قتل ہوئے۔ ۱۲۵۸ء میں سقوطِ بغداد کا سانحہ اس انداز میں رو پذیر ہوا کہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ تاتاری سپاہیوں نے بنو عباس کے آخری خلیفہ مستعصم باللہ کو گھسیٹ کر محل سے باہر نکالا اور کسی جانور کی کھال میں لپیٹ کر اسے گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا۔ یوں انتہائی عبرتناک طریقے سے عربوں کو اُمت مسلمہ کی قیادت سے معزول کر دیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق معجزانہ طور پر ان ہی تاتاریوں کی اولاد میں سے ترکانِ تیموری‘ ترکانِ صفوی‘ ترکانِ سلجوقی اور ترکانِ عثمانی جیسی قومیں مسلمان ہو کر اسلام کی علمبردار بن گئیں۔   

  ہے عیاں   فتنہ تاتار  کے  افسانے سے 

                   پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے           (اقبال)

          بالآخر اُمت مسلمہ کی قیادت کا سہرا سلطنت ِعثمانیہ (The Great Ottoman Empire) کے نام سے ترکانِ عثمانی کے سر باندھ دیا گیا اور اس طرح خلافتِ عثمانیہ کا جھنڈا عالم اسلام پر چار سو سال (۱۹۲۴ء) تک لہراتا رہا۔

UP
X
<>