April 25, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 10

 إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا 

(اے پیغمبر !) جو لوگ تم سے بیعت کر رہے ہیں ، وہ درحقیقت اﷲ سے بیعت کر رہے ہیں ۔ اﷲ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے۔ اس کے بعد جو کوئی عہد توڑے گا، اُس کے عہد توڑنے کا وبال اُسی پر پڑے گا، اور جو کوئی اُس عہد کو پورا کرے گا جو اُس نے اﷲ سے کیا ہے، تو اﷲ اُس کو زبردست ثواب عطا کر ے گا

ٓیت ۱۰ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ: ’’(اے نبی!) یقینا وہ لوگ جو آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔‘‘

            یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ: ’’ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘

            اس بیعت کے اندر گویا تین ہاتھ تھے۔رسول اللہ کا ہاتھ‘ بیعت کرنے والے شخص کا ہاتھ اوراللہ کا ہاتھ۔

            فَمَنْ نَّـکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ: ’’تو اب جو کوئی اس کو توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اپنے اوپر ہی لے گا۔‘‘

            وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا: ’’اور جو کوئی پورا کر ے گا اس معاہدے کو جو وہ اللہ سے کر رہا ہے تو وہ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘

            اس آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے سورۃ التوبہ کی اس آیت کو ایک مرتبہ پھر سے دہرا لیں: اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـیَـقْتُلُوْنَ وَیُـقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ. (آیت ۱۱۱) ’’یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘ یہ وعدہ اللہ کے ذمے ہے سچا تورات‘ انجیل اور قرآن میں۔ اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے؟ پس خوشیاں منائو اُس بیع پر جس کا سودا تم نے اُس کے ساتھ کیا ہے‘‘۔ اب ان دونوں آیات کے باہمی ربط و تعلق کو اس طرح سمجھیں کہ سورۃ التوبہ کی اس آیت میں ایک ’’بیع‘‘ (سودے) کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس بیع کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت میں بھی ب ی ع مادہ سے باب مفاعلہ (بَایَعْتُمْ بِہٖ) آیا ہے اور یہاں آیت زیر مطالعہ میں بھی (اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ)۔ لفظ بیعت دراصل بیع سے ہی مشتق ہے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ دو فریق جب خرید و فروخت (بیع) کا کوئی معاملہ کرتے تو سودا پکا ہو جانے پر آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ یہ مصافحہ دراصل ’’بیع‘‘ طے ہو جانے کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے مصافحے کو ’’بیعت‘‘ کا نام دے دیا گیا۔

            سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ اور بندے کے مابین ہونے والی بیع و شراء میں بندے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس سودے کی بیعت براہِ راست اللہ کے ہاتھ پر نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے یہ ’’بیعت‘‘ اللہ کے کسی نمائندے یعنی کسی انسان کے ہاتھ پر ہی کرنی پڑے گی اور اس طرح عملی طور پر اس سودے یا بیع میں تین فریق شامل ہوں گے ‘یعنی اللہ‘ سوداکرنے والا شخص اور وہ شخص جس کے ہاتھ پر اس سودے کی بیعت ہو گی۔ آج بالفرض اگر میں اپنا مال و جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو میرے اور اللہ کے درمیان چونکہ غیب کا پردہ حائل ہے اس لیے مجھے یہ معلوم کرنے کے لیے کوئی ’’انسان‘‘ ہی ڈھونڈنا پڑے گا کہ میں اپنی جان کب اور کیسے قربان کروں؟ اور اپنا مال کس طریقے سے کہاں خرچ کروں؟ صحابہ کرام کو یہ ’’انسان‘‘ اللہ کے رسول کی شکل میں میسر تھا‘ انہوں نے اپنے مال و جان کے سودے کی ’’بیعت ‘‘حضور کے ہاتھ پر کررکھی تھی۔ چنانچہ جب حضور انہیں بتاتے تھے کہ اب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں پہنچ جائو اور اب اپنے اموال حاضر کر دو تو صحابہ خوشی خوشی آپ کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کب حضور انہیں حکم دیں اور کب انہیں اللہ کی امانت کو لوٹانے کی سعادت نصیب ہو۔

            صحابہ کے قلوب و اذہان کی اس کیفیت کی تصویر سورۃ الاحزاب کی اس آیت میں دکھائی گئی ہے: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ: (آیت ۲۳) ’’اور اہل ایمان میں کچھ جواں مرد لوگ وہ ہیںجنہوں نے سچا کر دکھایا وہ وعدہ جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا‘ ان میں وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ گویا اللہ کے ساتھ مذکورہ سودے (بیع وشراء) کے بعد وہ جواں مرد اپنی جانیں اور اپنے مال اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے مسلسل بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ کسی شاعر نے اس خوبصورت مضمون کو تغزل کے رنگ میں یوں ادا کیا ہے:     

وبالِ دوشِ ہے  سر    جسمِ ناتواں پہ مگر

لگا رکھا ہے ترے خنجر وسناں کے لیے!

کہ اے محبوب! ہم تو اپنے جسم ناتواں پر اپنے سر کے اس ’’بوجھ‘‘ کو صرف اس لیے اٹھائے پھر رہے ہیں کہ تو جب چاہے اور جہاں چاہے بس اسی وقت وہیں پر ہم تیری راہ میں اسے قربان کردیں۔ اب تو ہم زندہ ہی اس ’’انتظار‘‘ میں ہیں کہ کب تیرا اشارہ ہو اور کب ہم اپنے سر کو کٹوا کر تیری امانت کے اس بوجھ سے سبکدوش ہوں۔

            اب رسول اللہ کے بعد قیامت تک کے زمانے کے لیے بھی اس لائحہ عمل کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے حضور کے بعد اس نوعیت کی بیعت جس کسی کے ہاتھ پر بھی ہو گی وہ حضور کا کوئی امتی ہی ہو گا۔ لہٰذااس کی اطاعت مستقل بالذات اطاعت نہیں ہو گی بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہو گی۔ چنانچہ اب اس نوعیت کی بیعت کسی ایسے داعی کے ہاتھ پر ہی ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ کے نام پر کھڑا ہو اورلوگوں کو قرآن اور دین کے نام پر پورے خلوص سے دعوت دے۔ پھر وہ اس دعوت پر لبیک کہنے والے افراد کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ایک جمعیت کی شکل میں منظم کرنے کی کوشش بھی کرے ۔ ظاہر ہے ’’جمعیت‘‘ کے بغیر اقامت دین کے لیے مؤثر اور منظم جدوجہد ممکن نہیں ۔

            جہاں تک جماعت سازی کے طریق کار کا تعلق ہے آج اس کے لیے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ بعض تنظیمیں فارم کے ذریعے رکنیت سازی کرتی ہیں‘ بعض دستخطی مہم چلا کر ممبرز بناتی ہیں۔ کئی جماعتیں اپنے امیر کا انتخاب استصوابِ رائے کے ذریعے سے کرتی ہیں‘ پھر کہیں دو سال کے لیے امیر منتخب ہوتا ہے اور کہیں چار سال کے لیے ‘وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب طریقے جائز اور مباح ہیں ‘لیکن جماعت سازی کا منصوص‘ مسنون اور ماثور طریقہ بیعت کا طریقہ ہی ہے۔غزوۂ احزاب کے موقع پر جب صحابہ کرام خندق کھودنے میں مصروف تھے تو وہ سب مل کر بلند آواز میں یہ شعر پڑھتے تھے:

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا                    عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا

کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کر رکھی ہے اور اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک ہماری جان میں جان ہے۔

             جماعت سازی کے لیے بیعت کا طریقہ نص ِقرآنی اور نص حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں مختلف مواقع پر صحابہ سے بیعت لی۔ حضور کے بعد خلافت راشدہ کا سلسلہ بھی بیعت کی بنیاد پر چلا۔ خلیفہ کے انتخاب کے لیے جب طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مشاورت ہو جاتی اور ایک فیصلہ کر لیا جاتا تو اس فیصلے پر باقاعدہ اعتماد کا اظہار لوگ بیعت کے ذریعے سے ہی کرتے تھے۔ پھر آگے چل کر جب خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تب بھی حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر نے اپنی اپنی جمعیتوں کی تشکیل بیعت کی بنیاد پر ہی کی تھی۔ حتیٰ کہ دورِ ملوکیت میں بھی مسلمان بادشاہ عوام سے اعتماد کا ووٹ بھی بیعت کے ذریعے سے ہی لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پچھلی صدی میں مسلمانوں کے اندر جتنی جہادی تحریکیں اٹھیں ان کی رکنیت سازی بھی بیعت کی بنیاد پر کی گئی۔ مثلاً سید احمد بریلوی کی سکھوں کے خلاف‘ مہدی سوڈانی کی انگریزوں کے خلاف اور سنوسیوں کی اطالویوں کے خلاف جہادی تحریکوں کو بیعت کی بنیاد پر ہی منظم کیا گیا۔ صوفیاء کے ہاں بھی اپنے مریدین کے تزکیۂ نفس کے لیے ’’بیعت ارشاد‘‘ کا سلسلہ رائج ہے۔

            بہر حال اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تنظیم سازی اور جمعیت ناگزیر ہے‘ کیونکہ اکیلا چنا تو بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ البتہ کسی داعی کی دعوت پر لبیک کہنے سے پہلے اس کی شخصیت‘ اس کے معمولات و معاملات‘ معیارِ تقویٰ‘ دین و دنیا کے بارے میں اس کے علم و شعور‘ اقامت دین کے لیے اس کی جدوجہد کے طریق کار وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح سے تحقیق کر لیجیے۔ پھر جب کسی شخصیت کے بارے میں دل مطمئن ہو جائے کہ واقعی وہ اقامت دین کی جدوجہد کے بارے میں مخلص ہے اور باقی ضروری شرائط پر بھی پورا اُترتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کا ساتھ دیجیے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کے اندر رہتے ہوئے اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کیجیے کیونکہ ’’سمع و اطاعت‘‘ کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کوئی تنظیم اپنے ہدف کے حصول کے لیے مؤثر جدوجہد کر سکتی ہے۔

UP
X
<>