April 20, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 11

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

وہ دیہاتی جو (حدیبیہ کے سفر میں ) پیچھے رہ گئے تھے، اب وہ تم سے ضرور یہ کہیں گے کہ : ’’ ہمارے مال ودولت اور ہمارے اہل و عیال نے ہمیں مشغول کر لیا تھا، اس لئے ہمارے لئے مغفرت کی دُعا کر دیجئے۔‘‘ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ۔ (ان سے) کہو کہ : ’’ اچھا تو اگر اﷲ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اﷲ کے سامنے تمہارے معاملے میں کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہو؟ بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو، اﷲ اُس سے پوری طرح باخبر ہے

دوسرے رکوع کی یہ آیات صلح حدیبیہ کے بعد حضور کے واپسی کے سفر کے دوران نازل ہوئیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح غزوئہ تبوک سے واپسی پر سورۃ التوبہ کی کچھ آیات نازل ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کے تحت بعد میں نازل ہونے والی ان آیات کو پہلے سے جاری سلسلہ کلام کو منقطع کر کے یہاں پر رکھا گیا ہے۔ آیات کے تسلسل میں تقدیم و تاخیر کا بالکل یہی انداز اس سے پہلے ہم سورۃ التوبہ کے آغاز میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ پہلے رکوع کا مضمون یہاں پر منقطع ہو رہا ہے اور اس مضمون کا تسلسل اب تیسرے رکوع کے مضمون کے ساتھ جا کر ملے گا۔

آیت ۱۱ سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ: ’’عنقریب آپؐ سے کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ جانے والے تھے دیہاتیوں میں سے‘‘

            گویا رسول اللہ کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپؐ کے مدینہ پہنچتے ہی اردگرد کے قبائل سے بادیہ نشین آپؐ کے پاس آ آ کر عذر پیش کریں گے کہ :

            شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا: ’’ہمیں مشغول رکھا ہمارے اموال اور اہل و عیال (کی دیکھ بھال ) نے ‘چنانچہ آپ ہمارے لیے استغفار کیجیے۔‘‘

            حضورنے تمام مسلمانوں پر عمرے کے لیے نکلنا لازم قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن آپؐ نے اعلانِ عام کروایا تھا کہ جو کوئی عمرے کے لیے جا سکتا ہے ضرور چلے۔ بہر حال جو لوگ استطاعت کے باوجود آپؐ کے ساتھ نہیں گئے تھے یہ ان کی منافقت کا ذکر ہے کہ وہ آپؐ کے سامنے اپنی نام نہاد مصروفیات کے بہانے بنائیں گے۔

            یَـقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ: ’’یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔‘‘

            قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ لَـکُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ بِکُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ نَفْعًا: ’’آپؐ (ان سے) کہیے کہ کون ہے جو کچھ اختیار رکھتا ہو تمہارے بارے میں اللہ کی طرف سے کچھ بھی اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہیں نفع پہنچانے کا ارادہ کرے؟‘‘

            اللہ تعالیٰ کا تمہارے بارے میں نفع یا نقصان کا جو بھی ارادہ ہو وہ تمہاری کسی تدبیر سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اپنے گھروں میں رہ کر تم لوگ اللہ کی تقدیر کو نہیں بدل سکتے تھے۔ تمہارے گھروں میں اگر کوئی خیر آنا تھی تو وہ تمہاری عدم موجودگی میں بھی آسکتی تھی اور اگر کوئی شر تمہارے مقدر میں لکھا تھا تو وہ تمہاری موجودگی میں بھی آ سکتا تھا۔ لہٰذا ہمارے ساتھ نہ جانے کے جواز میں تمہارے سب دلائل بے معنی اور فضول ہیں۔

            بَلْ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا: ’’بلکہ جو کچھ تم کرتے رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘

            اب وہ بات بتائی جا رہی ہے جو اصل میں ان کے دلوں میں تھی۔

UP
X
<>