April 19, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 12

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا

حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے یہ سمجھا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان کبھی اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر نہیں آئیں گے، اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوتی تھی، اور تم نے بُرے بُرے گمان کئے تھے، اور تم ایسے لوگ بن گئے تھے جنہیں برباد ہونا تھا

آیت ۱۲ بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓی اَہْلِیْہِمْ اَبَدًا: ’’بلکہ تم لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اب رسول اور اہل ِایمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے‘‘

            تمہارا خیال تھا کہ ان لوگوں کا دماغ چل گیا ہے جو خود چل کر موت کے منہ میں جارہے ہیں اور یہ کہ قریش ِ مکہ انہیں جیتے جی کبھی واپس نہیں آنے دیں گے۔

            وَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْء: ’’اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برا گمان کیا۔‘‘

            وَکُنْتُمْ قَوْمًا بُوْرًا: ’’اور تم ہو ہی تباہ ہونے والے لوگ۔‘‘

            اس سے پہلے سورۂ محمد میں منافقین کے جس طرزِ عمل کا ذکر ہوا تھا وہ ۲ ہجری کا دور تھا جبکہ ابھی قتال کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ اُس دور میں وہ لوگ ’’اقدام‘‘ سے متعلق حضور کی حکمت عملی کے مقابلے میں صلح جوئی اور امن پسندی کی باتیں کرتے تھے۔ اب ان آیات میں ان کی ۶ ہجری کے زمانے کی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔ 

UP
X
<>