April 19, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلامَ اللَّهِ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ كَانُوا لا يَفْقَهُونَ إِلاَّ قَلِيلاً

(مسلمانو !) جب تم غنیمت کے مال لینے کیلئے چلو گے تو یہ (حدیبیہ کے سفر سے) پیچھے رہنے والے تم سے کہیں گے کہ : ’’ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔‘‘ وہ چاہیں گے کہ اﷲ کی بات کو بدل دیں ۔ تم کہہ دینا کہ : ’’ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے۔ اﷲ نے پہلے سے یوں ہی فرما رکھا ہے۔‘‘ اس پر وہ کہیں گے کہ : ’’ دراصل آپ لوگ ہم سے حسد رکھتے ہیں ۔‘‘ نہیں ! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں کہ بہت کم بات سمجھتے ہیں

آیت ۱۵ سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ: ’’(اے مسلمانو!) عنقریب یہی پیچھے رہنے والے کہیں گے‘ جب تم لوگ غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے جاؤ گے‘  کہ ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں۔‘‘

            اس آیت میں فتح خیبر کی طرف اشارہ ہے۔ خیبر یہودیوں کا بہت بڑا گڑھ تھا۔ مسلمانوں سے بد عہدی کی بنا پر جن دو یہودی قبائل (بنو قینقاع اور بنو نضیر) کو مدینہ سے نکالا گیا تھا وہ بھی خیبر میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اس علاقے میں انہوں نے بڑے بڑے قلعے بنا کر عسکری اعتبار سے خود کو بہت مضبوط کر لیا تھا۔ یہ لوگ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد جب قریش کی طرف سے جنگ وغیرہ کا کوئی خطرہ نہ رہا تو اگلے ہی سال یعنی ۷ ہجری میں رسول اللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت کے ساتھ خیبر پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔ یہاں ان آیات کے ذریعے مسلمانوں کو پیشگی (۶ ہجری میں) مطلع کیا جا رہا ہے کہ جب اگلے سال تم لوگ خیبر کی طرف پیش قدمی کرو گے تو ا س کی فتح کو یقینی سمجھتے ہوئے اور وہاں سے بہت بڑے اموالِ غنیمت کی توقع کرتے ہوئے یہ منافقین بھی اس مہم پر تمہارے ساتھ جانے کے لیے تم سے اجازت مانگیں گے۔

            یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللّٰہِ: ’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کر دیں‘‘

            گویا یہ لوگ اللہ کے اس حکم کو خلافِ واقعہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعتِ رضوان میں شریک ہوئے تھے‘ جیسا کہ آگے آیات ۱۸‘ ۱۹ میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔

            قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ: ’’آپؐ کہیے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جائو گے‘ یہ بات اللہ پہلے ہی فرما چکا ہے۔‘‘

            ان الفاظ کا اشارہ اسی سورت کی آیات ۱۸‘۱۹ کی طرف ہے‘ جو اس سے پہلے نازل ہو چکی تھیں۔

            فَسَیَـقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا: ’’اس پر وہ کہیں گے:بلکہ آپ لوگ ہم سے حسد کر رہے ہیں۔‘‘

            اس پر وہ آپ لوگوں پر الزام دھریں گے کہ آپ لوگ حسد کی بنا پر ہمیں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے کہ ہم بھی کہیں تمہیں حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت  میں حصہ دار نہ بن جائیں۔

            بَلْ کَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا: ’’بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ فہم ہی نہیں رکھتے مگر بہت کم۔

UP
X
<>