April 18, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 18

 لَقَدْ رَضِيَ اللَّه عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

یقینا اﷲ اِن مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے، اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ بھی اﷲ کو معلوم تھا، اس لئے اُس نے اُن پر سکینت اُتار دی، اور اُن کو اِنعام میں ایک قریبی فتح عطا فرمادی

            اب آئندہ آیات میں اسی مضمون کا تسلسل ہے جو پہلے رکوع میں  اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ: (آیت ۱۰)  کے الفاظ سے شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر اس مضمون کا سلسلہ درمیان سے منقطع کرکے بعد میں نازل ہونے والی آیات کو وہاں جگہ دے دی گئی اوراب آیت ۱۸ سے دوبارہ وہی مضمون شروع ہو رہا ہے۔

آیت ۱۸ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ: ’’اللہ راضی ہو گیا اہل ایمان سے جب کہ وہ آپؐ سے بیعت کر رہے تھے ‘درخت کے نیچے ‘تو اللہ کے علم میں تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا‘‘

            یعنی بیعت کے وقت تو ان کے دلوں میں فقط ذوقِ شہادت اور جوشِ جہاد تھا۔ صلح کی بات چیت تو ان کی بیعت کے بعد شروع ہوئی تھی۔

            فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا: ’’تو اللہ نے ان پر سکینت نازل کر دی اور انہیں (بدلے میں) ایک قریبی فتح بخشی۔‘‘

            یہ اشارہ ہے فتح خیبر کی طرف جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد جلد ہی ظہور میں آ گئی۔ ان الفاظ میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ انعام ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ  صفر ۷ھ میں خیبر پر چڑھائی کے لیے نکلے تو آپؐ نے صرف انہی اصحاب کو ساتھ لیا ۔

UP
X
<>