April 19, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 25

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاء مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَؤُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاء لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر اِختیار کیا، اور تمہیں مسجدِ حرام سے روکا، اور قربانی کے جانوروں کو جو ٹھہرے ہوئے کھڑے تھے، اپنی جگہ پہنچنے سے روک دیا۔ اور اگر کچھ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں (مکہ میں ) نہ ہوتیں جن کے بارے میں تمہیں خبر بھی نہ ہوتی کہ تم اُنہیں پیس ڈالو گے، اور اُس کی وجہ سے بے خبری میں تم کو نقصان پہنچ جاتا (تو ہم ان کافروں سے تمہاری صلح کے بجائے جنگ کروادیتے، لیکن ہم نے جنگ کو اس لئے روکا) تاکہ اﷲ جس کو چاہے، اپنی رحمت میں داخل کردے۔ (البتہ) اگر وہ مسلمان وہاں سے ہٹ جاتے تو ہم ان (اہلِ مکہ) میں سے جو کافر تھے، اُنہیں دردناک سزادیتے

آیت ۲۵ ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ: ’’وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں روکے رکھا مسجد ِحرام تک جانے سے اور قربانی کے جانور بھی روکے گئے اپنی جگہ پہنچنے سے۔ 

            یہ ان جرائم کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب قریش مکہ نے اس پورے واقعے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو احرام کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کے طواف سے روکا بلکہ ان کے قربانی کے جانور وں کو بھی قربان گاہوں تک نہ پہنچنے دیا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور اس ممکنہ جنگ کو ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں جو حکمت کارفرما تھی اب اس کا ذکر ہو رہا ہے:

            وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآء مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَئُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ: ’’اور اگر نہ ہوتے (مکہ میں موجود) ایسے مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے‘ اندیشہ تھا کہ تم لوگ انہیں بھی کچل دیتے تو ان کے بارے میں تم پر الزام آتا بے خبری میں (تو جنگ نہ روکی جاتی)۔

            عین موقع پر جنگ کو روکنے میں دراصل یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اس وقت تک مکہ میں بہت سے ایسے اہل ِ ایمان افراد موجود تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ اس میں ضعفاء بھی تھے‘مریض بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان لوگوں کا ذکر سورۃ النساء کے چودھویں رکوع میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی معذوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کر دے گا اور ہجرت نہ کر سکنے کی بنا پر ان سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی شہر میں موجودگی کی صورت میں جب جنگ کی چکی ّچلتی تو یہ بے گناہ لوگ بھی اس میں ِپس جاتے اور اُلٹا مسلمانوں پر ان سے متعلق الزام بھی آتا کہ انہوں نے اپنے ہی اہل ایمان ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ممکنہ جنگ کو روک دیا اور مسلمانو ں کو بغیر لڑے صلح کی شکل میں فتح دے دی۔

            لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآء: ’’(جنگ اس لیے روکی گئی) تا کہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے۔‘‘

            لَوْ تَزَیَّلُوْا لَـعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا: ’’ اگر وہ (اہل ِایمان) علیحدہ ہو چکے ہوتے تو ان (اہل ّمکہ) میں سے جو کافر تھے ان کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتے۔‘‘

            اگر وہ کمزور اور معذور اہل ایمان اس وقت تک مکہ سے نکل چکے ہوتے تو ہم یہ جنگ ہونے دیتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کو ان کے جرائم کی بدترین سزا دلواتے۔

UP
X
<>