April 24, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 27

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا ہے جو واقعے کے بالکل مطابق ہے۔ تم لوگ ان شاء اﷲ ضرور مسجدِ حرام میں اس طرح امن وامان کے ساتھ داخل ہوگے کہ تم (میں سے کچھ) نے اپنے سروں کو بے خوف و خطر منڈوایا ہوگا، اور (کچھ نے) بال تراشے ہوں گے۔ اﷲ وہ باتیں جانتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہیں ۔ چنانچہ اُس نے وہ خواب پوراہونے سے پہلے ایک قریبی فتح طے کر دی ہے

آیت ۲۷ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّئْ یَا بِالْحَقِّ: ’’اللہ نے اپنے رسول کو بالکل سچا خواب دکھایا حق کے ساتھ۔‘‘

            یہ اُس خواب کا ذکر ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ نے عمرے کا قصد فرمایا تھا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ترغیب دی تھی۔ حضور نے خواب میں خود کو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور آپ نے اپنے اس خواب کا تذکرہ صحابہ سے سرعام کیا تھا۔ چونکہ رسول کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے جب صلح حدیبیہ کے نتیجے میں عمرہ اگلے سال پر ملتوی ہو گیا تو ایسی صورت میں حضور کے خواب کے بارے میں وضاحت ضروری تھی۔ مبادا کسی کے ذہن میں یہ شبہ جنم لیتا کہ ‘نعوذ باللہ‘ حضور کا خواب سچا نہیں تھا۔ اس ضمن میں جب حضور سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو کہا تھا ہم عمرہ کریں گے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ضرور اسی سال کریں گے۔ آیت زیر مطالعہ میں پیشگی خبر دی جا رہی ہے کہ تم لوگ اللہ کے رسول کے خواب کے عین مطابق عمرہ ادا کرو گے۔ چنانچہ اگلے ہی سال ۷ ہجری کو آپ نے مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کیا۔ تاریخ میں یہ عمرہ ’’عمرۃ القضاء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

            لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ: ’’(اے مسلمانو!) تم لازماً داخل ہو گے  مسجد الحرام میں ‘ان شا ء اللہ‘ پورے امن کے ساتھ‘‘

            مُحَلِّقِیْنَ رُؤُوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ: ’’اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو ترشواتے ہوئے‘ (اُس وقت) تمہیں کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔‘‘

            اگلے سال یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ اگلے سال جب مسلمان عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو پورا شہر خالی تھا۔ قریش اپنے گھروں کو چھوڑ کر تین دن کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ اس دوران مسلمان مکہ میں مقیم رہے اور انہوں نے پورے اطمینان سے عمرہ ادا کیا۔

            فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا: ’’تو اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے‘ تو اس کے علاوہ اس نے (تمہارے لیے) ایک قریب کی فتح بھی رکھی ہے۔‘‘

            اس سے فتح خیبر مراد ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت ۱۵ کے ضمن میں بھی ہو چکا ہے۔ یعنی اگلے سال جب تم لوگ قضا عمرہ ادا کرنے کے لیے جاؤ گے تو اس سے پہلے تم یہودیوں کے گڑھ خیبر کو فتح کر کے اس کے غنائم سمیٹ چکے ہو گے۔

            اب وہ عظیم آیت آ رہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورۃ التوبہ میں (آیت ۳۳) بھی پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ الفاظ سورۃ الصف (۲۸ ویں پارے) کی آیت ۹ میں بھی آئیں گے۔ سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں یہ آیت جوں کی توں آئی ہے‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت میں اس کا آخری حصہ (وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا) مختلف ہے۔

UP
X
<>