April 19, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 28

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اُسے ہر دوسرے دین پر غالب کر دے۔ اور (اس کی) گواہی دینے کیلئے اﷲ کافی ہے

آیت ۲۸  ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ:’’وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر‘‘

            اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوعِ انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے:   

             نوعِ انساں را پیامِ آخریں                حامل اُو  رحمۃٌ للعالمیں!   (اقبال)

مزید برآں ان کو سچا اور کامل دین بھی عطا فرمایا ہے‘ جو عادلانہ نظامِ زندگی کا خاکہ پیش کرتا ہے۔

            لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ: ’’تا کہ وہ غالب کر دے اسے کُل کے کل نظامِ زندگی پر۔‘‘

            گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت ۲ اور آیت ۲۰ میں جس سیدھے راستے (صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا) کا ذکر ہے وہ راستہ ’’اظہارِ دین حق‘‘ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو! پھر سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۱ میں جھوٹے معبودوں کے ابطال کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ’’الدِّیْن‘‘ (نظامِ زندگی) کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کے یہ الفاظ: اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ: ’’کیا ان کے لیے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میںکچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا؟‘‘ یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے‘ تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ کی بعثت کا مقصد ہی ’’اظہارِدین حق‘‘ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ اس ’’الدِّین‘‘ کو پورے نظامِ زندگی پر غالب کر دے۔

            وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا: ’’اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔‘‘

            عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ’’گواہ‘‘ کیا جاتا ہے‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ’’مددگار‘‘ ہوگا۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے‘ جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا: وَادْعُوْا شُہَدَآءَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ: کہ بلا لو اس کام کے لیے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا۔ ’’شَھِدَ یَشْھَدُ‘‘ کے معنی کسی موقع یا وقوعہ پر حاضر ہونے کے ہیں۔ ’’گواہی‘‘ کے معنی اس لفظ میں اسی حاضری کے مفہوم کی وجہ سے آئے ہیں‘ کیونکہ کسی واقعے کی صحیح گواہی کا اہل تو وہی شخص ہو سکتا ہے جو وہاں اس وقت موقع پر حاضر ہو۔ جبکہ اسی ’’حاضری‘‘ کی وجہ سے اس لفظ میں ’’مددگار‘‘ کے معنی بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے آپ کی مدد وہی شخص کر سکے گا جو آپ کے ساتھ موجود ہو گا۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جو آپ کا بہت اچھا دوست ہو‘ آپ کے ساتھ مخلص بھی ہو‘ مگر جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو اس وقت آپ کے پاس موجود ہی نہ ہو تو وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ سیاق و سباق کے اعتبار سے یہاں لفظ شھید کے معنی مددگار کے ہیں۔

UP
X
<>