April 25, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 4

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکینت اُتار دی، تاکہ اُن کے ایمان میں مزید اِیمان کا اضافہ ہو۔ اور آسمان اور زمین کے تمام لشکر اﷲ ہی کے ہیں ، اور اﷲ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

آیت ۴ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ:’’وہی ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل کر دی تا کہ وہ اضافہ کر لیں اپنے ایمان میں مزید ایمان کا۔‘‘

            یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت اور طمانیت ہی تھی جس کے باعث صحابہ کرام jاپنی جانیں قربان کردینے کے فیصلے پر پورے سکونِ قلب کے ساتھ جازم رہے۔ پھر اسی سکینت کے سہارے صحابہ کرام اس کڑے امتحان سے بھی سر خرو ہو کر نکلے جو اس خاص موقع پر انہیں رسول اللہ کی اطاعت کے حوالے سے درپیش تھا۔ اس موقع پر اصل صورت حال یہ تھی کہ صحابہ میں سے کوئی ایک فرد بھی صلح کے حق میں نہیں تھا ‘لیکن اس کے باوجوداس دوران ان کے نظم و ضبط کا یہ عالم رہا کہ بغیر کسی ایک استثناء کے پوری جماعت نے حضور کے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا۔

            بادئ النظر میں یہ کہنا ذرا عجیب لگتا ہے کہ ’’صحابہ میں سے کوئی بھی صلح کے حق میں نہیں تھا‘‘ لیکن تاریخی حقائق بہر حال ایسی ہی صورتِ حال کی گواہی دیتے ہیں۔ چنانچہ سیرت کی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد جب رسول اللہ نے فرمایا کہ مسلمانو! اب اٹھو‘ احرام کھول دو اور یہیں پر قربانیاں کر دو‘ تو آپ کے کہنے پر کوئی ایک مسلمان بھی نہ اٹھا۔ آپ نے اپنا یہ حکم پھر دہرایا تو پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ لوگو اٹھو! احرام کھول دو اور قربانی کے جانور ذبح کر دو‘ تو آپ کے تیسری مرتبہ فرمانے پر بھی کوئی تعمیل کے لیے نہ اٹھا۔ بلاشبہ صحابہ کا یہ ’’توقف‘‘ اضطراری کیفیت کے باعث تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے لیے امتحان کی کوئی صورت ہے‘ اس کے بعد شاید کوئی نیا حکم آجائے گا اور صورت حال بدل جائے گی۔ دراصل یہ صورتِ حال صحابہ کی سمجھ سے باہر تھی کہ جو احرام انہوں نے حضور کی اقتدا میں عمرے کے لیے باندھے ہیں وہ عمرہ ادا کیے بغیر میدانِ حدیبیہ میں ہی کھول دیے جائیں۔ بہر حال حضور کے تیسری مرتبہ حکم دینے پر بھی جب کوئی احرام کھولنے کے لیے نہ اٹھا تو آپ دل گرفتہ ہو کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ آپ کے ساتھ تھیں ۔جب آپ نے تمام صورت حال انہیں بتائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی زبان مبارک سے کچھ نہ فرمائیں‘ بس آپ اپنا احرام کھول دیں اور قربانی کا جانور ذبح کر دیں۔ چنانچہ آپ کے احرام کھولنے اور جانور ذبح کرنے پر سب مسلمانوں نے احرام کھول دیے اور اپنے اپنے جانور ذبح کر دیے۔ صحابہ کے مذکورہ ردِ عمل سے یہ حقیقت بہرحال عیاں ہوتی ہے کہ اس موقع پر وہ سب کے سب ’’صلح‘‘ کو خوش آمدید کہنے کے بجائے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے زیادہ پُر عزم تھے۔

            وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا: ’’اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر تو اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘

UP
X
<>