April 19, 2024

قرآن کریم > الحُـجُـرات >sorah 49 ayat 13

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ 

اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرداور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ درحقیقت اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اﷲ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے

آیت ۱۳  یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی:  ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے‘‘

          تم میں سے چاہے کوئی مومن ہے یا کوئی کافر و مشرک لیکن تم سب آدمؑ اور حوا کی ہی اولاد ہو۔

           وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا:  ’’اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘

          ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر اگر تمام انسان ایک رنگ اور ایک جیسی شکل و صورت کے حامل ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہو جاتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور پھر انہیں رنگ ‘نسل زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ کروڑوں‘اربوں انسانوں کی پہچان اور تعارف میں کسی سطح پر کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

          یہاں دراصل اس اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کا فرق اور اقوام و قبائل میں ان کی تقسیم‘اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز و تفریق کے لیے نہیں بلکہ ان کی باہمی جان پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔ رسول اللہ  نے خطبہ حجۃ الوادع میں اس مضمون کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی :

((یَا اَیُّھَا النَّاسُ! اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَ بَاکُمْ وَاحِدٌ ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی)) 

’’لوگو! آگاہ ہو جائو‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔‘‘

          ایچ جی ویلز (۱۸۶۶ء۔۱۹۴۶ء) اپنی کتاب ’’ A Concise History of the World‘‘میں حضور  کے خطبہ مبارک کے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد گھٹنے ٹیک کر آپؐ کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ چنانچہ عیسائی ہونے کے باوجود اُس نے لکھا ہے :

’’اگرچہ انسانی اخوت ‘ مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد ( ) ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔‘‘

 H.G.Wells کے اس تبصرے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ حضور  کا بہت بڑا مداح تھا‘ بلکہ اس نے اپنی اسی کتاب میں حضور  کی شخصیت پر بہت رکیک حملے بھی کیے ہیں۔ اس حوالے سے اس کا انداز سلمان رشدی ملعون سے ملتا جلتا ہے‘ لیکن اپنے تمام تر تعصب کے باوجود اسے حضور  کے حوالے سے تاریخ کی یہ عظیم حقیقت تسلیم کرنا پڑی۔ مقامِ افسوس ہے کہ بعد کے ایڈیٹرز نے مصنف کے اس اعترافی بیان کو مذکورہ کتاب سے خارج کر دیا ہے۔ اس لیے مذکورہ اقتباس کی تصدیق کے خواہش مند حضرات کو کسی لائبریری سے اس کتاب کا کوئی پرانا ایڈیشن تلاش کرنا پڑے گا۔

           اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ:  ’’یقینا تم میں سب سے زیادہ با عزت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میںسب سے بڑھ کر متقی ہے۔‘‘

           اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر:  ’’یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا‘ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘

UP
X
<>