April 24, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ 

اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے وہ چوپائے حلال کر دیئے گئے ہیں جو مویشیوں میں داخل (یا ان کے مشابہ) ہوں ، سوائے اُن کے جن کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا، بشرطیکہ جب تم اِحرام کی حالت میں ہو اس وقت شکار کو حلال نہ سمجھو۔ اﷲ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کا حکم دیتا ہے

            سورۃ النساء کا آغاز ،،یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ،، سے ہوا تھا،  جبکہ سورۃ المائدۃ کا آغاز ،، یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ،،  کے الفاظ سے ہو رہا ہے۔

 

آیت 1:   یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ:   ،، اے اہل ِایمان! اپنے عہد و پیمان (قول و قرار) کو پورا کیا کرو۔،،

             عقدہ گرہ کو کہتے ہیں جس میں مضبوطی سے بندھنے کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا ،،عُقُود،،   سے مراد وہ معاہدے ہیں جو باقاعدہ طے پا گئے ہوں۔ معاہدوں اور قول و قرار کی اہمیت یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری کی پوری سماجی ومعاشرتی زندگی قائم ہی معاہدوں پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا بنیادی یونٹ ایک خاند ان ہے،  جس کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی جاتی ہے۔ شادی کیا ہے؟ مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انسانی معاشرے کی بلند وبالا عمارت کی بنیادی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فریقین کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض۔ ایک طرف بیوی کے حقوق اور اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف شوہر کے حقوق اور اس کے فرائض۔  بڑے بڑے کاروبار بھی معاہدوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ آجر اور ٔمستاجر کا تعلق بھی ایک معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کاروبارِ حکومت،  حکومتی اداروں میں عہدے اورمناصب، چھوٹے بڑے اہلکاروں کی ذمہ، داریاں،  ان کی مراعات اور اختیارات کا معاملہ ہے۔ گویا تمام معاشرتی، معاشی اورسیاسی معاملات قرآن حکیم کے ایک حکم پر عمل کرنے سے درست سمت پر چل سکتے ہیں، اور وہ حکم ہے ،، اَوْفُوْ بِالْعُقُوْدِ،،۔    ّ

             اُحِلَّتْ لَــکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا یُـتْلٰی عَلَیْکُمْ:  ، تمہارے لیے حلال کر دیے گئے ہیں مویشی قسم کے تمام حیوانات،  سوائے اِن کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جارہے ہیں،،

            جن کا حکم آگے چل کر تمہیں بتایا جائے گا،  یعنی خنزیر،  مردار ُوغیرہ حرام ہیں۔ باقی جو مویشی قسم کے جانور ہیں،  وحوش نہیں (مثلاً شیر،  چیتا وغیرہ وحشی ہیں)  وہ حلال ہیں، جیسے ہرن،  نیل گائے اور اس طرح کے جانور جو عام طور پر گوشت خور نہیں ہیںبلکہ سبزے پر ان کا  گزارا ہے، ان کا گوشت تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔ البتہ استثنائی صورتوں کی تفصیل بعد میں تمہیں بتا دی جائے گی۔

             غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ: ۔ ، نہ جائز کرتے ہوئے شکار کو جبکہ تم حالت ِ احرام میں ہو۔،،

            یعنی اگر تم نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا ہوا ہے تو تم اس حالت میں ان حلال جانوروں کا بھی شکار نہیں کر سکتے۔

             اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ: ۔ ، بے شک اللہ حکم دیتا ہے جو چاہتا ہے۔۔ ،  

            یہ اللہ کا اختیار ہے،  وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

UP
X
<>