April 24, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 5

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُالطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلُّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ 

آج حلال ہوئیں تم کو سب ستھری چیزیں اور اہل کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور حلال ہیں تم کو پاک دامن عورتیں مسلمان اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو دی گئی کتاب تم سے پہلے جب دو ان کو مہر ان کے قید میں لانے کو نہ مستی نکالنے کو اور نہ چھپی آشنائی کرنے کو  اور جو منکر ہوا ایمان سے تو ضائع ہوئی محنت اس کی اور آخرت میں وہ ٹوٹے والوں میں ہے 

آیت۵   اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ:  ،،آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔،،

            یہ وہی   اَلْـیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْـنَـکُمْ ……  والا انداز ہے ۔

            یعنی اس سے پہلے اگر مختلف مذاہب کے احکام کی وجہ سے،  یہود کی شریعت یا حضرت یعقوب کی ذاتی پسند وناپسند کی بنا پر اگر کوئی رکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں یا معاشرے میں رائج مشرکانہ رسومات و اوہام کی وجہ سے تمہارے ذہنوں میں کچھ اُلجھنیں تھیں تو آج ان سب کو صاف کیا جا رہا ہے اور آج تمہارے لیے تمام صاف ستھری اورپاکیزہ چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

             وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ حِلٌّ لَّــکُمْ:  ،،اور اہل ِکتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔،،

            لیکن یہ صرف اُس صورت میں ہے کہ وہ کھانا اصلاً حلال ہو،  کیونکہ اگر ایک عیسائی ُسور کھا رہا ہو گا تو وہ ہمارے لیے حلال نہیں ہو گا۔ اِس کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے،  دو بنیادی شرائط کے ساتھ: ایک یہ کہ جانور حلال ہو اور دوسرے یہ کہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو ۔

             وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّـہُمْ:  ،،اسی طرح تمہارا کھانا بھی ان کے لیے حلال ہے۔،،

             وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ:  ،،اور( تمہارے لیے حلال ہیں)  اہل ِایمان میں سے خاندانی، عورتیں،،

             وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَـبْلِکُمْ:  ،،اور خاندانی عورتیں اُن لوگوں کی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی،،

             یعنی مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کر سکتا ہے ۔

             اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ:  ،،جب کہ تم انہیں ادا کر دو ان کے مہر،،

             مُحْصِنِیْنَ:   ،،قید نکاح میں لا کر ان کے محافظ بنتے ہوئے،،

            نیت یہ ہو کہ تم نے ان کو اپنے گھر میں بسانا ہے،  مستقل طور پر ایک خاندان کی بنیاد رکھنی ہے۔

             غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ :   ،،نہ کہ آزاد شہوت رانی کے لیے،،

             وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ:  ،،اور نہ ہی چوری چھپے آشنائی کرنے کے لیے۔،،

            بلکہ معروف طریقے سے علی الاعلان نکاح کر کے تم انہیں اپنے گھروں میں آباد کرو اور ان کے محافظ بنو۔ اس ضمن میں بعض اشکالات کا رَفع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک شریعت ِ اسلامی کا حکم ہے تو شریعت رسول اللہ  پر مکمل ہو چکی ہے،  اب اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ۔ اس لحاظ سے یہ قانون اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔یہ توہے اس کا جواز، البتہ اگر آج اس کے خلاف کسی کو کوئی مصلحت نظر آتی ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے،  لیکن اس کے باوجود قانون کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ البتہ اگر ایک خالص اسلامی ریاست ہو تو حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے کسی ایسی اجازت یا حکم کو موقوف کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حضرت عمر نے ایک مرتبہ اپنے زمانے میں قحط کے سبب قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی سزا کو موقوف کر دیا تھا ۔ اس طرح کسی قانون میں اسلامی حکومت کے کسی عارضی انتظامی حکم  (Executive Order)  کے ذریعے سے کوئی عارضی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں اس اجازت کے پس منظر میں جو فلسفہ اور حکمت ہے اس کی اصل روح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اجازت صرف مسلمان َمردوں کو دی گئی ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں،  مسلمان عورت عیسائی یا یہودی مرد سے شادی نہیں کر سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد عورت پر غالب ہوتا ہے،  لہٰذا امکانِ غالب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اسلام کی طرف راغب کر لے گا۔ دوسرے یہ کہ اُس زمانے میں یہ ّبات مسلمہ تھی کہ اولاد مرد کی ہے، اور مرد کے غالب اور فعال ّہونے کا مطلب تھا کہ ایسے میاں بیوی کی اولاد عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہوگی ۔ اُس وقت ویسے بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا اور یہودی اور عیسائی ان کے تابع ہو چکے تھے۔ آج کل حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج عیسائی اور یہودی غالب ہیں، جبکہ مسلمان انتہائی مغلوب۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کا غلبہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی شادیاں نہ ہوں،  لیکن بہرحال ان کو حرام نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اس کے جواز کا واضح حکم موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی اسلامی ریاست کہیں قائم ہو جائے تو وہ عارضی طور پر (جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہ آ جائے)  اس اجازت کو منسوخ کر سکتی ہے ۔

             وَمَنْ یَّـکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہ:  ،،تو جس شخص نے ایمان کے ساتھ کفر کیا اس کے تمام اعمال ضائع ہو گئے،،

            اس میں اشارہ اہل ِکتاب کی طرف بھی ہو سکتا ہے کہ جب تک محمد رسول اللہ تشریف نہیں لائے تھے تب تک وہ اہلِ ایمان تھے لیکن اب اگر وہ نبی آخر الزماں  پر ایمان نہیں لا رہے تو گویا وہ کفر کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کا مدعی ہوکر کافرانہ حرکتیں کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

             وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ:   ،،اور آخرت میں وہ ہوگا خسارہ اٹھانے والوں میں ۔،،

UP
X
<>