April 25, 2024

قرآن کریم > ق >sorah 50 ayat 16

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ 

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو پید اکیا ہے، اور اُس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں ، اُن (تک) سے ہم خوب واقف ہیں ، اور ہم اُس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں

آيت 16: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ:  «اور هم نے هى انسان كو پيدا كيا هے اور هم خوب جانتے هيں جو اس كا نفس وسوسے ڈالتا هے».

يه اُس قوتِ شر كا ذكر هے جو انسان كے اندر هے. نفسِ انسانى كے شر كا ذكر سوره يوسف ميں يوں آيا هے: ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (يوسف: 54)

«اور ميں اپنے نفس كو برى قرار نهيں ديتا، يقينا (انسان كا) نفس تو برائى هى كا حكم ديتا هے، سوائے اس كے جس پر ميرا رب رحم فرمائے. يقينا ميرا رب بهت بخشنے والا، نهايت رحم كرنے والا هے».

فطرى طور پر انسان كے اندر داعيه خير بهى هے اور داعيه شر بهى. انسان كى اندرونى قوتِ شر كو سوره يوسف كى اس آيت ميں «نفس اماره» كا نام ديا گيا هے. فرائيڈ اسے Id يا Libido كهتا هے. دوسرى طرف انسان كے اندر خير كى قوت اس كى روح هے، جس كا مسكن قلبِ انسانى هے. انسان كى روح اسے بلندى كى طرف لے جانا چاهتى هے. اس داعيه يا قوت كو فرائيڈ super ego كا نام ديتا هے، يعنى ego (انسانى انا) كا اعلى درجه. فرائيڈ كے ديے هوئے يه عنوانات تو كسى حد تك همارے ليے قابل قبول هيں، ليكن ان عنوانات كى تشريح جو اس نے كى هے اسے هم درست نهيں سمجھتے. اس كى وجه وهى هے جو اس حوالے سے كئى مرتبه پھلے بهى بيان هو چكى هے كه مغربى سائنسدان اور فلاسفرز سب كے سب ايك آنكھ سے ديكھتے هيں. وه صرف «عالمِ خلق» يعنى اسباب وعلل كى دنيا سے واقف هيں اور اس ميں كوئى كلام نهيں كه مادى دنيا كے اسرار ورموز كو وه خوب سمجھتے هيں. اس ميدان ميں انهوں نے تحقيق وتفتيش كے ايسے معيار قائم كيے هيں كه انسانى عقل واقعى دنگ ره جاتى هے. ليكن دوسرى طرف «عالمِ امر» كے بارے ميں وه بالكل اندھے اور كورے هيں. يعنى ان كے هاں روح، وحى اور فرشتے وغيره كا كوئى تصور نهيں هے. يهى وجه هے كه انسان كے بارے ميں ان كے فلسفيانه تجزيے اكثر درست نهيں هوتے. بهر حال آيت زير مطالعه ميں انسان كے اندر موجود قوتِ شر (نفسِ امّاره) كا ذكر هے كه انسان كا نفس اسے جو پٹياں پڑھاتا هے اس كى تفصيلات اس كے خالق سے پوشيده نهيں هيں.

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ:  «اور هم تو اس سے اس كى رگِ جاں سے بهى زياده قريب هيں».

ظاهر هے الله تعالى كے اس قرب كى كيفيت اور نوعيت كے بارے ميں هم كچھ نهيں جانتے، بقول شاعر يه قرب «بے تكيف وبے قياس» هے:

اتصالے بے تكيف وبے قياس   هست رب الناس با جانِ ناس

سورة الحديد كى آيت: 4 ميں بندوں كے ساتھ الله تعالى كے اس قرب كا ذكر ان الفاظ ميں آيا هے: ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ كه تم جهاں كهيں بهى هوتے هو وه تمهارے ساتھ هوتا هے. ظاهر هے هم اس «معيت» كا تصور نهيں كر سكتے. اسى طرح قرآن ميں الله تعالى كے هاتھ اور چهرے كا ذكر بهى هے، اس كا چھره كيسا هے؟ هم نهيں جانتے. اس كا هاتھ كيسا هے؟ هميں كچھ معلوم نهيں. الله تعالى رات كے آخرى حصے ميں آسمانِ دنيا پر نزول فرماتا هے. وه كيسے نزول فرماتا هے؟ هم اس كى كيفيت كو نهيں سمجھ سكتے. ايسے معاملات ميں خواه مخواه كا تجسس هميں فتنوں ميں مبتلا كرنے كا باعث بن سكتا هے. اس حوالے سے هميں آخرى بات يه ذهن ميں ركھنى چاهيے كه «عالمِ امر» اور اس كى كيفيات همارى سمجھ سے وراء الوراء هيں. هم اپنے حواسِ خمسه اور عقل وشعور كے ذريعے جو علم حاصل كر سكتے هيں اس كا تعلق عالم خلق سے هے. هميں چاهيے كه هم اسى دائرے ميں رهتے هوئے سوچيں، سمجھيں، تحقيق كريں، نتائج اخذ كريں اور ان نتائج كو بروئے كار لائيں. دوسرى طرف «عالمِ امر» سے متعلق جو معلومات وحى كے ذريعے هم تك پهنچيں انهيں من وعن تسليم كر ليں. سوره بنى اسرائيل كى آيت: 36 كے الفاظ: ﴿إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ﴾ ميں اسى طرز عمل كى طرف همارى راهنمائى كى گئى هے. چنانچه آيت زير مطالعه كے حوالے سے همارے ليے بس يه جان لينا كافى هے كه الله تعالى همارى رگِ جان سے بهى زياده همارے قريب هے. اس قرب كى منطق اور كيفيت كے بارے ميں هميں عقل كے گھوڑے دوڑانے كى ضرورت نهيں هے.

UP
X
<>