April 20, 2024

قرآن کریم > الـنجـم >sorah 53 ayat 4

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى

یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی ہوئی ہے

آيت 4:  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى:  «يه تو صرف وحى هے جو ان كو كى جاتى هے».

اگلى آيات ميں حضرت جبريل عليه السلام كا ذكر هے جنهوں نے نبى مكرم كو اس كلام كى تعليم دى. يه مضمون دوسرى مرتبه 30ويں پارے كى سورة التكوير ميں آيا هے. دونوں عبارتوں ميں ايك خوبصورت مماثلت يه هے كه وهاں بھى حضور كا ذكر كيا گيا هے: (وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ) {التكوير: 22 – 25}

«اور (مكے والو!) تمهارے يه رفيق ديوانے نهيں هيں. بے شك انهوں اس (جبرائيل) كو كھلے اُفق پر ديكھا هے. اور وه غيب كے معاملے ميں بخيل نهيں هيں. اور يه هرگز كسى شيطان رجيم كا قول نهيں هے».

جضرت جبرائيل جب وحى لے كر آتے تو وه حضور كو نظر نهيں آتے تھے اور نه هى وحى كو آپ اپنے كانوں سے سن  سكتے تھے. فرشتے اور وحى دونوں كا تعلق چونكه عالمِ امر سے هے اس ليے ان كا نزول بھى آپ كى شخصيت كے اس حصے پر هوتا تھا جو عالمِ امر سے متعلق تھا، يعنى آپ كى روح مبارك. يا دوسرے لفظوں ميں يوں سمجھيں كه انسانى روح كا مسكن چونكه قلبِ انسانى هے اس ليے وحى كا نزول براه راست حضور كے قلب مبارك پر هوتا تھا:

نغمه وهى هے نغمه  كه  جس كو

روح سنے     اور    روح سنائے!

تاهم حضرت جبرائيل كا حضور كے پاس انسانى شكل ميں آنا بھى ثابت هے. روايات ميں يه وضاحت بھى ملتى هے كه حضرت جبرائيل جب انسانى شكل ميں آپ كے پاس آتے تو عمومًا خوبصورت نوجوان صحابى دحيه كلبى كى شكل ميں آتے جو بهت عظيم انسان تھے. اس حوالے سے ايك اهم نكته يه بھى هے كه انسانى شكل ميں حضرت جبرائيل كى حضور سے جو گفتگو هوتى وه «وحى متلو» يعنى قرآن ميں شامل نهيں هے. مثلاً «حديثِ جبريل» ميں حضرت جبرائيل كے ساتھ حضور كے مكالمے كى تفصيل درج هے. اس موقع پر حضرت جبرائيل انسانى شكل ميں حضور كے پاس آئے اور آپ سے دين كے بارے ميں چند بنيادى سوالات پوچھے. آپ نے ان سوالات كے جوابات ديے. ان كے چلے جانے كے بعد آپ نے صحابه كرام كو بتايا كه يه جبرائيل تھے جو تم لوگوں كو تمهارا دين سكھانے كے ليے آئے تھے. اس حديث كا مضمون اس قدر اهم هے كه محدثين نے اسے «أمُ السُّنَّة» قرار ديا هے، ليكن اس حديث كے مندرجات قرآن ميں شامل نهيں.

البته حضور نے حضرت جبرائيل كو دو مرتبه ان كى اصلى شكل ميں بھى ديكھا هے. پهلى مرتبه تو آپ نے انهيں آغاز نبوت كے زمانے ميں ديكھا تھا، يه واقعه «فترت وحى» كے دنوں ميں پيش آيا. (پهلى وحى كے بعد وحى كا سلسله كچھ عرصے كے ليے منقطع رها، اس وقفے كو فترتِ وحى كها جاتا هے.) ايك دن آپ غارِ حرا سے اُتر رهے تھے تو آپ نے ايك آواز سنى : «يا محمد!» آپ نے ادھر اُدھر ديكھا تو كوئى بھى نهيں تھا. آپ نے سمجھا كه شايد مجھے دھوكه هوا هے، ليكن دوسرے هى لمحے وهى آواز پھر سنائى دى. اس مرتبه بھى آپ كو جب كوئى انسان دكھائى نه ديا تو آپ كو كچھ خوف محسوس هوا. تيسرى مرتبه جب آپ نے پھر وهى آواز سنى تو آپ نے آسمان كى طرف ديكھا. اوپر ديكھنے سے آپ كو حضرت جبرائيل اپنى اصلى ملكوتى شكل ميں اس طرح نظر آئے كه پورا افق بھرا هوا تھا.

دوسرى مرتبه آپ نے حضرت جبرائيل كو معراج كے موقع پر سدرة المنتهى كے قريب ديكھا. آينده آيات ميں اسى مشاهدے كا ذكر هے. حضرت جبرائيل جب حضور كو سفر معراج پر لے جانے كے ليے آئے تو وه انسانى شكل ميں تھے اور آپ كے ليے جو سوارى (براق) وه لے كر آئے تھے وه بھى كوئى محسوس ومرئى قسم كى مخلوق تھى. ليكن جب آپ ساتويں آسمان پر سدرة المنتهى كے پاس پهنچے تو وهاں حضرت جبرائيل اصل ملكوتى شكل ميں ظاهر هوئے. اس مقام پر انهوں نے آگے جانے سے معذرت كرتے هوئے كها كه اگر ميں يهاں سے آگے بڑھوں گا تو ميرے پَر جل جائيں گے:

اگر يك بر سرِ موئے برتر قدم         فروغ تجلى بسوزد پرم

اس مضمون كے حوالے سے يهاں سمجھنے كا اصل نكته يه هے كه حضرت جبرائيل كى اصل ملكوتى شكل ميں حضور سے ملاقات كرانے اور پھر اس ملاقات كا قرآن مجيد ميں ذكر كرنے كا مقصد نزولِ وحى كے سلسلے كے درميانى رابطے (link) كى سند فراهم كرنا هے. اس نكته لطيف كو «اصولِ حديث» كے حوالے سے سمجھنا چاهيے. محدثين نے احاديث كى صحت (authenticity) كى تحقيق كے ليے جو اصول وضع كيے هيں ان ميں ايك بنيادى اصول يه بھى هے كه جس شخص كى كسى دوسرى شخصيت سے روايت منقول هے اس كى اس شخصيت سے شعور كى عمر اور شعور كى كيفيت ميں ملاقات بھى ثابت هونا ضرورى هے. اگر ايسى ملاقات ثابت نه هو سكے تو متعلقه راوى كى روايت قابلِ قبول نهيں سمجھى جاتى. مثلاً اگر تابعى كى كسى صحابى سے كوئى روايت منقول هے مگر حقائق ثابت كرتے هيں كه جب وه صحابى فوت هوئے تو متعلقه تابعى كى عمر صرف چھ سال تھى، يعنى اس وقت ان كى عمر ايسى نه تھى كه وه بات كو سمجھ كر كسى دوسرے كو بتا سكتے، تو ايسى صورت ميں متعلقه تابعى كى وه روايت محدثين كے ليے قابلِ قبول نهيں هو گى. چنانچه حديثِ رسول كى صحت (authenticity) كے ليے اگر متعلقه راويوں كى ملاقات كا ثابت هونا ضرورى هے تو ايسا هى ثبوت الله تعالى كى حديث (الله تعالى نے قرآن كو سورة الزمر كى آيت: 23 ميں اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ قرار ديا هے.) كى روايت كے حوالے سے بھى دستياب هونا چاهيے. ------ چنانچه قرآن مجيد كى روايت كى تصديق وتوثيق يوں هو گى: قرآن كيا هے؟ يه الله كا كلام هے. الله سے اس كا كلام كس نے سنا؟ جبرائيل نے سنا. جبرائيل سے كس نے سنا؟ جبرائيل سے محمد نے سنا. تو كيا جبرائيل اور محمد كى ملاقات ثابت هے؟ جى هاں! ان كے درميان دو مرتبه كى ملاقات قرآن سے ثابت هے. چنانچه وحى كى روايت كا درميانى رابطه (link) ثابت كرنے كے ليے حضور كى حضرت جبرائيل سے اصل ملكوتى شكل ميں ملاقات كى «سند» انتهائى اهم هے جو يه آيات فراهم كر رهى هيں.

UP
X
<>