April 23, 2024

قرآن کریم > الـقمـر >sorah 54 ayat 1

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

قیامت قریب آلگی ہے، اور چاند پھٹ گیا ہے

آيت 1:  اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ:  «قيامت كى گھڑى قريب آ چكى اور چاند شق هو گيا».

جيسا كه قبل ازيں بھى كئى بار ذكر هو چكا هے كه قيامت كى نشانيوں ميں سب سے قطعى اور يقينى نشانى حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت هے. اس حوالے سے حضور كا فرمان هے: «بعثت أنا والساعة كهاتين».  «مجھے اور قيامت كو ان دو انگليوں كى طرح (جڑا هوا) بھيجا گيا هے». اس لحاظ سے اقتربت الساعةُ كا مفهوم يه هے كه اب جبكه آخرى رسول بھى دنيا ميں آچكے هيں تو سمجھ لو كه قيامت كا وقت بهت قريب آ لگا هے. سورة السجده كى آيت: 5 ميں هم پڑھ چكے هيں كه الله تعالى كے هاں ايك دن همارے هزار برس كے برابر هے. اس اعتبار سے ديكھا جائے تو حضور كے وصال كو ابھى صرف ڈيڑھ دن هى هوا هے. بهر حال الله تعالى كے علم كے مطابق حضور كى بعثت كے بعد اب قيامت بالكل سامنے هے. حضرت اسرافيل اپنے منه كے ساتھ صور لگائے بالكل تيار كھڑے هيں، بس الله تعالى كى طرف سے ايك اشارے كى دير هے. جوں هى اشاره هو گا وه صور ميں پھونك مار ديں گے. قربِ قيامت كے اس مفهوم كو سورة المعارج ميں يوں بيان كيا گيا هے: «إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا  وَنَرَاهُ قَرِيبًا» (المعارج: 6، 7) «يه لوگ تو قيامت كو بهت دور سمجھ رهے هيں، جب كه هم اسے بهت قريب ديكھ رهے هيں».

آيت ميں چاند كے پھٹنے كا ذكر ايك خرقِ عادت واقعه كے طور پر هوا هے. روايات كے مطابق اس وقت حضور منى ميں تشريف فرما تھے. چاند كى چودھويں رات تھى، آپ كے اردگرد هر طرح كے لوگ تھے، كسى نے كها كه آپ كى طرف سے كوئى نشانى هونى چاهيے. آپ نے فرمايا: چاند كى طرف ديكھو، لوگوں كو متوجه كركے آپ نے انگلى كا اشاره كيا اور چاند پھٹ كر دو ٹكڑے هو گيا. ايك ٹكڑا سامنے كى پهاڑى كے ايك طرف اور دوسرا دوسرى طرف چلا گيا اور پھر اگلے هى لمحے دونوں ٹكڑے قريب آ كر دوباره جڑ گئے. آپ نے لوگوں سے فرمايا: ديكھو اور گواه رهو. كفار نے كها كه محمد نے هم پر جادو كر ديا تھا، اس ليے همارى آنكھوں نے دھوكا كھايا. بعد ميں باهر سے آنے والے لوگوں نے بھى اس كى شهادت دى. ميرے نزديك يه معجزه نهيں تھا بلكه ايك «خرقِ عادت» واقعه تها. اس نكتے كى وضاحت اس سے پهلے بھى كئى مرتبه كى جا چكى هے كه هر رسول كو ايك معجزه ديا گيا جو باقاعده دعوے كے ساتھ دكھايا گيا. اس لحاظ سے حضور كا معجزه قرآن هے، البته خرق عادت واقعات حضور سے بے شمار نقل هوئے هيں. ظاهر هے اگر اولياء الله سے كرامات كا ظهور هوتا هے تو حضور كى كرامات تو هزار گنا بڑى هوں گى.

اس واقعه پر بهت سے اعتراضات بھى هوئے هيں، اس بنياد پر بھى كه اس سے متعلق دنيا ميں كوئى تاريخى ثبوت موجود نهيں. اسى ليے سر سيد احمد خان اور ان كے مكتبه فكر كے لوگوں نے آيت كے متعلقه الفاظ كى مختلف تاويلات كى هيں. بهر حال جهاں تك تاريخى ثبوت نه هونے كا تعلق هے اس بارے ميں يه حقيقت بھى مد نظر رهنى چاهيے كه يه واقعه رونما هونے كے وقت آدھى دنيا ميں دن كى روشنى هو گى. ليكن جن علاقوں ميں چاند ديكھا جا سكتا تھا ان علاقوں كے لوگ بھى تو ظاهر هے اس وقت ٹكٹكى باندھے چاند كو نهيں ديكھ رهے تھے كه ان ميں سے اكثر اس واقعے كے عينى شاهد بن جاتے. پھر يه منظر بھى صرف لمحے بھر كا تھا اور اس دوران چاند كى روشنى ميں بھى كوئى فرق نهيں آيا تھا كه لوگ چونك كر ديكھتے. البته ايك تاريخى روايت كے مطابق برصغير ميں مالا بار كے ساحلى علاقے كے ايك هندو راجه نے يه منظر اپنى آنكھوں سے ديكھا تھا. بعد ميں جب عرب تاجروں كے ذريعے اس تك اسلام كى دعوت اور قرآنى تعليمات پهنچيں تو اس نے نه صرف ايك چشم ديد گواه كے طور پر اس واقعے كى تصديق كى بلكه وه ايمان بھى لے آيا. والله اعلم!

UP
X
<>