April 25, 2024

قرآن کریم > الـرحـمـن >sorah 55 ayat 4

عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

اُسی نے اُس کو بات واضح کرنا سکھایا

آيت 4:  عَلَّمَهُ الْبَيَانَ:  «اس كو بيان سكھايا».

يعنى اسے بولنا سكھايا، اسے گويائى كى صلاحيت بخشى. آيات زير مطالعه كے حوالے سے يهاں چوتھا اهم نكته يه هے كه انسان كى صلاحيتوں ميں سے جو چوٹى كى صلاحيت هے وه قوتِ بيان (گويائى) هے. آج ميڈيكل سائنس كى تحقيق سے هميں معلوم هوا هے كه انسان كى قوتِ گويائى كا تعلق اس كے دماغ كى خصوصى بناوٹ سے هے. سائنس كى زبان ميں تو انسان بھى حيوان هى هے، ليكن اس كے بولنے كى صلاحيت كى وجه سے اسے حيوانِ ناطق (بولنے والا حيوان) كها گيا هے. دماغ تو ظاهر هے انسان سميت تمام جانوروں ميں موجود هے، ليكن هر جانور كے دماغ كى بناوٹ اور صلاحيت مختلف هے. اس لحاظ سے انسان كا دماغ تمام حيوانات كے دماغوں ميں سب سے اعلى هے اور اس ميں ايسى صلاحيتيں بھى پائى جاتى هيں جو كسى اور  جانور كے دماغ ميں نهيں هيں. بهرحال استعداد كے حوالے سے حيوانى دماغ كى بناوٹ كى نچلى سطح سے ترقى كر كے گوريلوں اور چيمپنزيز (champenzies) كے دماغ كى سطح تك پهنچتى هے، اور پھر اس ترقى كى معراج انسان كا دماغ هے. انسانى دماغ كے مختلف حصے هيں، مثلا سماعت سے متعلق حصه، بصارت سے متعلق حصه وغيره. حواس (آنكھ، كان وغيره) سے حاصل هونے والى معلومات پهلے دماغ كے متعلقه حصے ميں جاتى هيں اور پھر وهاں سے gray matter كے پچھلے حصے ميں پهنچتى هيں. ليكن انسانى دماغ كا سب سے اهم اور بڑا حصه speech center هے، اور اس ميں بھى كلام كے فهم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے هيں، يعنى ايك حصے ميں دوسروں كى بات سمجھنے كى صلاحيت هے جبكه دوسرا حصه دوسروں تك بات پهنچانے سے متعلق هے.

ويسے تو الله تعالى نے انسان كو بهت سى صلاحيتوں سے نوازا هے، ليكن قوتِ گويائى كے علاوه انسان كى باقى تقريبا تمام صلاحيتں كسى نه كسى سطح پر كسى نه كسى درجے ميں دوسرے حيوانات كو بھى ملى هيں، بلكه بعض حيوانات كى بعض صلاحيتيں تو انسان كے مقابلے ميں كهيں بهتر هيں. بعض جانوروں كى بصارت همارے مقابلے ميں بهت زياده تيز هے، كئى جانور اندھيرے ميں بھى ديكھ سكتے هيں جبكه هم ديكھنے كے ليے روشنى كے محتاج هيں. گھوڑے كى قوتِ سماعت انسان كے مقابلے ميں كئى گنا زياده هے. چنانچه ذرا سى آهٹ پر گھوڑے كے كان (antenna كى طرح) كھڑے هو جاتے هيں، جبكه گھڑ سوار نے ابھى نه كچھ ديكھا هوتا هے نه سنا هوتا هے. اسى طرح كتوں كے دماغ ميں سونگھنے كا حصه بهت بڑا هوتا هے، اسى وجه سے ان كے سونگھنے كى حِس انسان كے مقابلے ميں سو گنا سے بھى زياده تيز هے. بهرحال باقى صلاحيتيں تو دوسرے جانوروں ميں بھى پائى جاتى هيں، ليكن بيان اور گويائى كى صلاحيت صرف اور صرف انسان كا طره امتياز هے.

اس تمهيد كے بعد اب ان آيات كو دوباره پڑھيے. ان چار آيات سے تين جملے بنتے هيں. پهلى آيت: ﴿الرَّحْمَنُ﴾ جمله نهيں هے، يه مبتدا هے اور: ﴿عَلَّمَ الْقُرْآنَ﴾ اس كى خبر هے. چنانچه پهلى اور دوسرى آيت كے ملنے سے مكمل جمله بنتا هے. يعنى «رحمن نے قرآن سكھايا». اس كے بعد آيت: 3 ﴿خَلَقَ الْإِنْسَانَ﴾ «اس نے انسان كو پيدا كيا» بھى مكمل جمله هے اور آيت: 4 ﴿عَلَّمَهُ الْبَيَانَ﴾ «اسے بيان كى صلاحيت عطا كى» بھى مكمل جمله هے.... اب ان آيات پر اس پهلو سے غور كيجيے كه يهاں الله تعالى نے اپنے سب سے اعلى نام كے حوالے سے سب سے اعلى علم (قرآن) كا ذكر كيا. پھر اپنى چوٹى كى مخلوق اور اس مخلوق كى چوٹى كى صلاحيت (بيان) كا ذكر كيا. اس زاويے سے غور كيا جائے تو يه تين جملے رياضى كے كسى سوال كى طرح جواب كا تقاضا كرتے نظر آتے هيں. چنانچه جس طرح رياضى كے «نسبت وتناسب» كے سوالات ميں تين رقموں (values) كى مدد سے چوتھى رقم معلوم كى جاتى هے، اسى طرح ان تين جملوں پر غور كرنے سے اس عبارت كے اصل مدعا تك پهنچا جا سكتا هے. «رحمن نے قرآن سكھايا. اس نے انسان كو پيدا كيا اور اسے بيان كى صلاحيت عطا فرمائى». كس ليے؟ ___ جواب بالكل واضح هے: قرآن كے بيان كرنے كے ليے!.  ظاهر هے الله تعالى نے اپنى اعلى ترين مخلوق كو «بيان» كى انمول صلاحيت سے اس ليے تو نهيں نوازا كه وه اسے لهو ولعب ميں ضائع كرتا پھرے، يا دلائل كے انبار لگانے والا وكيل يا شعله بيان مقرر بن كر اسے حصولِ دولت وشهرت كا ذريعه بنا لے. جيسے كها جاتا هے كه توپ اس ليے تو نهيں بنائى جاتى كه اس سے مكھياں مارى جائيں. چنانچه انسان كى اس بهترين صلاحيت كا بهترين مصرف يه هوگا كه وه اسے بهترين علم كے سيكھنے سكھانے كا ذريعه بنائے. يعنى اپنى قوتِ بيان كو قرآن كى تعليم اور نشر واشاعت كے ليے وقف كر دے. ان آيات كے اس مفهوم كو حضور صلى الله عليه وسلم كے اس فرمان كى روشنى ميں بهتر انداز ميں سمجھا جا سكتا هے. آپ نے فرمايا:  «خيرُكُم مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَهُ». يهاں خَيْرُكُم كا صيغه تفضيل كل (superlative degree) كے مفهوم ميں آيا هے كه تم سب ميں بهترين وه هے جو قرآن سيكھے اور سكھائے. اس حديث كے حوالے سے ضمنى طور پر يهاں يه نكته بھى نوٹ كر ليجيے كه اس كے راوى حضرت عثمان بن عفان (رضى الله عنه) كے نام اور حديث كے لفظ «قرآن» كے قافيے بھى زير مطالعه آيات كے قافيوں كے ساتھ مل رهے هيں. يعنى ايسے محسوس هوتا هے جيسے اس حديث كى ان آيات كے ساتھ خصوصى نسبت هے. سورة الرحمن كى ان ابتدائى آيات كا مطالعه كرتے هوئے اگر سورة القمر كى ترجيعى آيت: ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾ كے مفهوم اور پرشكوه اسلوب كو بھى مد نظر ركھا جائے اور ان آيات كى ترتيب پر بھى غور كيا جائے كه سورة القمر كى مذكوره آيت كو بار بار دهرانے كے فورًا بعد سورة الرحمن كى يه آيات آئى هيں تو ان آيات كا مذكوره مفهوم واضح تر هو جاتا هے. بهرحال ان آيات كے بين السطور يه پيغام بھى مضمر هے كه انسانوں پر الله تعالى كى اس عظيم نعمت كا حق ادا كرنا لازم هے.

UP
X
<>