April 25, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 14

يُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْاَمَانِيُّ حَتّٰى جَاءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ 

وہ مومنوں کو پکاریں گے کہ : ’’ کیاہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟‘‘ مومن کہیں گے کہ : ’’ ہاں ! تھے تو سہی، لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈال لیا، اور اِنتظار میں رہے، شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی آرزوؤں نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا، یہاں تک کہ اﷲ کا حکم آگیا، اور وہ بڑا دھوکے باز (یعنی شیطان) تمہیں دھوکا ہی دیتا رہا

آيت 14:  يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ:  «وه (منافق) انهيں پكار كر كهيں گے كيا هم تمهارے ساتھ نه تھے؟»

هم تمهارے ساتھ مسجدِ نبوى ميں نمازيں پڑھا كرتے تھے، عيدوں كى نمازوں ميں بھى هم تمهارے ساتھ هوتے تھے، هم نے تمهارے ساتھ فلاں فلاں مهمات ميں بھى حصه ليا. هر جگه، هر مقام پر هم تمهارے ساتھ هى تو تھے، پھر آج تمهارے اور همارے مابين اتنا فرق وتفاوت كيوں هے؟

قَالُوا بَلَى:  «وه كهيں گے: هاں كيوں نهيں! (تم تھے تو همارے ساتھ هى)».

وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ:  «ليكن تم نے اپنے آپ كو (اپنے هاتھوں) فتنے ميں ڈالا»

فتنه كيا هے؟ قرآن مجيد ميں فتنے كى تين نسبتيں بيان كى گئى هيں. كهيں تو الله تعالى اس كى نسبت اپنى طرف كرتا هے كه هم نے ان كو فتنے ميں ڈالا هے كه هم آزما كر ظاهر كر ديں كه كون كھرا هے، كون كھوٹا هے. دوسرى نسبت ان كفار كى طرف كى گئى جو مسلمانوں كو ستا رهے تھے اور انهيں فتنے ميں ڈال رهے تھے. تيسرى نسبت يه هے كه انسان اپنے آپ كو خود فتنے ميں ڈالتا هے، يعنى جو لوگ اهل وعيال اور متاع دنيوى كى محبت ميں گرفتار هو جاتے هيں اور ان كى محبت كو الله كى محبت پر ترجيح ديتے هيں وه اپنے آپ كو فتنے ميں مبتلا كر ليتے هيں. اس فتنے كا ذكر سورة التغابن ميں بايں الفاظ فرمايا گيا هے: (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ) (آيت: 15) «بلاشبه تمهارے مال اور تمهارى اولاد (تمهارے حق ميں) فتنه هيں». الله تعالى، اس كے رسول صلى الله عليه وسلم اور جهاد في سبيل الله كے مقابلے ميں اپنے مال ومتاع اور اهل وعيال كو عزيز تر جاننا سب سے بڑا فتنه هے. يهاں پر سورة التوبه كى يه آيت بھى ذهن ميں تازه كر ليں:

(قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ) آيت: 24.

« (اے نبى صلى الله عليه وسلم ان سے) كهه ديجيے كه اگر تمهارے باپ، تمهارے بيٹے، تمهارے بھائى، تمهارى بيوياں (اور بيويوں كے ليے شوهر)، تمهارے رشته دار اور وه مال جو تم نے بهت محنت سے كمائے هيں، اور وه تجارت جس كے مندے كا تمهيں خطره رهتا هے، اور وه مكانات جو تمهيں بهت پسند هيں، (اگر يه سب چيزيں) تمهيں محبوب تر هيں الله، اُس كے رسول اور اس كے راستے ميں جهاد سے تو انتظار كرو يهاں تك كه الله اپنا فيصله سنا دے. اور الله ايسے فاسقوں كو راه ياب نهيں كرتا».

اس آيت نے گويا ايك ترازو نصب كر كے اس كے ايك پلڑے ميں آٹھ اور دوسرے ميں تين محبتيں ركھ دى هيں، اب هر كوئى اپنے اپنے پلڑوں كى كيفيت كو ديكھ كر اندازه لگا سكتا هے كه وه كهاں كھڑا هے. تو اے گروهِ منافقين! تم خود بتاؤ تم نے اپنى زندگيوں ميں ان ميں سے كون سے پلڑے كو جھكا كر ركھا تھا؟ آٹھ محبتوں والے پلڑے كو يا الله ورسول صلى الله عليه وسلم اور جهاد كى محبت والے پلڑے كو؟ ظاهر هے دنيا ميں تم لوگ دنيا دارى كے تقاضوں كو، اپنے مال ومتاع اور اهل وعيال  كو الله كى رضا اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم كى محبت پر ترجيح ديتے رهے هو، يه تمهارا اپنا فيصله تھا. يه فيصله كر كے تم نے اپنے آپ كو خود فتنے ميں ڈالا اور اس كا نتيجه كيا نكلا؟

وَتَرَبَّصْتُمْ:  «اور تم گو مگو كى كيفيت ميں مبتلا هو گئے»

يه وهى لفظ هے جو سورة التوبه كى مذكوره بالا آيت كے آخر ميں (فَتَرَبَّصُوْا) آيا هے. تَرَبُّص كے معنى انتظار كے بھى هيں كه آدمى كسى جگه پر ٹھٹك كر كھڑا هو جائے. ايمان وعمل كے معاملے ميں يه «انتظار» هى دراصل فتنه هے. يه ايمان كى ڈانواں ڈول كيفيت كا نام هے جس كى وجه سے آدمى فيصله نهيں كر سكتا كه آگے بڑھوں يا نه بڑھوں! آگے بڑھتا هوں تو جان ومال كو شديد خطرات لاحق هوتے هيں اور رُكتا هوں تو باز پرس كا ڈر هے. ايسى صورت حال ميں وه سوچنے لگتا هے كه كچھ دير انتظار كرتا هوں، اگر خطره ٹل گيا تو آگے بڑھ جاؤں گا، ورنه پيچھے مڑ جاؤں گا. اور باز پرس هو گى تو جھوٹ بول كر جان بچا لوں گا.

وَارْتَبْتُمْ:  «اور تم لوگ شكوك وشبهات ميں پڑ گئے»

پھر تمهارى منافقت كا مرض بڑھ كر اگلے مرحلے ميں داخل هو گيا. يعنى پهلے الله كے مقابلے ميں مال واولاد كى محبت نے فتنے ميں ڈالا، اس كا نتيجه «ترَبُّص» (گو مگو كى كيفيت) كى صورت ميں سامنے آيا. پھر اس كے بعد ايك مرحله ايسا بھى آيا جب بچے كھچے ايمان ميں شكوك وشبهات كے كانٹے چھبنے شروع هو گئے كه كيا پتا قيامت آئے گى بھى كه نهيں! معلوم نهيں يه مر كر زنده هونے كى باتيں سچى اور واقعى هيں يا محض افسانے هيں! يه دنيا تو ايك حقيقت هے، ليكن آخرت كا كيا اعتبار! يهاں كا عيش اور يهاں كے مزے تو نقد هيں. اس آرام وآسائش كو اگر ميں آخرت كے موهوم وعدے پر قربان كر دوں تو پتا نهيں اس كا اجر ملے گا بھى يا نهيں! اس كے بعد اس مرض كى آخرى نشانى بتائى گئى:

وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ:  «اور تمهيں دھوكے ميں ڈال ديا تمهارى خواهشات نے»

ان خواهشات كى ايك صورت يه بھى هے كه الله بڑا غفور ورحيم هے، وه بڑے بڑے گناه گاروں كو بخش ديتا هے، هم جو بھى هيں، جيسے بھى هيں، الله تعالى كے محبوب صلى الله عليه وسلم كى امّت هيں. بالكل ايسا هى زعم يهوديوں كو بھى تھا كه هم الله كے محبوب وبرگزيده بندے هيں: we are the chosen people of the lord. چنانچه تم لوگ اپنى انهى خوش فهميوں ميں مگن رهے. اس مرحلے ميں اگر كبھى توبه كرنے اور روش تبديل كرنے كا خيال تمهيں آيا بھى تو خوشنما آرزوؤں (wishful thinkings) كے تصور نے تمهارے ضمير كو تھپك تھپك كر پھر سے سُلا ديا.

حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ:  «يهاں تك كه الله كا فيصله آگيا اور تمهيں خوب دھوكه ديا الله كے معاملے ميں اُس بڑے دھوكے باز نے».

يعنى شيطان لعين نے تم لوگوں كو الله كے نام پر دھوكه ديا. اس حوالے سے سوره لقمان ميں هم يه تنبيه پڑھ چكے هيں: (فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ) «تو (ديكھو!) تمهيں دھوكے ميں نه ڈال دے دنيا كى زندگى اور (ديكھنا!) تمهيں دھوكے ميں نه ڈال دے الله كے حوالے سے وه بڑا دھوكے باز».

زير مطالعه اس آيت ميں بهت جامع انداز ميں منافقت كے مدارج اور مراحل كے بارے ميں بتا ديا گيا هے. مرض كا نقطه آغاز مال واولاد كى حد سے بڑھى هوئى محبت سے هوتا هے، ان چيزوں ميں انهماك كى وجه سے انسان كے دل ميں الله، اس كے رسول صلى الله عليه وسلم اور جهاد كى محبت بتدريج كم هوتى چلى جاتى هے، اس صورت حال كے نتيجے ميں تربص كى كيفيت پيدا هوتى هے. جس كى وجه سے ايمان كے اندر شكوك وشبهات كے رخنے پڑ جاتے هيں اور يه وه مرحله هے جب نفاق اپنى اصل شكل ميں نمودار هو كر دل ميں مستقل ڈيرے جما ليتا هے.

UP
X
<>