April 25, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 20

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ 

خوب سمجھ لو کہ اس دُنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دُوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اُگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں ، پھر وہ اپنا زور دِکھاتی ہے، پھر تم اُس کو دیکھتے ہو کہ زرد پڑ گئی ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں (ایک تو) سخت عذاب ہے، اور (دُوسرے) اﷲ کی طرف سے بخشش ہے، اور خوشنودی۔ اور دُنیا والی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

آيت 20:  اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ:  «خوب جان لو كه يه دنيا كى زندگى اس كے سوا كچھ نهيں كه ايك كھيل، دل لگى كا سامان اور ظاهرى ٹيپ ٹاپ هے اور تمهارا آپس ميں ايك دوسرے پر فخر جتانا اور مال واولاد ميں ايك دوسرے سے بڑھ جانے كى كوشش هے».

گذشته سطور ميں دنيا كى محبت كو گاڑى كى بريك سے تشبيه دى گئى هے، اس كا مطلب يه هے كه حبِّ دنيا انسان كو الله كے راستے پر چلنے سے ايسے روك ديتى هے جيسے ايك گاڑى كو اس كى بريك جامد وساكت كر ديتى هے. اب اس آيت ميں اس بريك يعنى حب دنيا كى اصل حقيقت كو بے نقاب كيا گيا هے. تو آئيے اس آيت كے آئينے ميں ديكھيے انسانى زندگى كى حقيقت كيا هے؟ انسانى زندگى كا آغاز كھيل كھود (لعب) سے هوتا هے، بچپن ميں انسان كو كھيل كھود كے علاوه كسى اور چيز سے كوئى دلچسپى نهيں هوتى. باپ امير هے يا غريب، اس كا كاروبار ٹھيك چل رها هے يا مندے كا شكار هے، بچے كو اس سے كوئى سروكار نهيں هوتا، اسے تو كھيلنے كھودنے كا موقع ملتے رهنا چاهيے اور بس. پھر جب وه لڑكپن كى عمر (teenage) كو پهنچتا هے تو اس كا كھيل كھود محض ايك معصوم مشغوليت تك محدود نهيں رهتا، بلكه اس ميں كسى نه كسى حد تك تلذّذ (sensual gratification) كا عنصر بھى شامل هو جاتا هے. اس عنصر كو آيت ميں «لَهْوٌ» كا نام ديا گيا هے. يهاں يه نكته بھى قابلِ غور هے كه عام طور پر قرآن ميں انسان كى دنيوى زندگى كى حقيقت بيان كرنے كے ليے لهو ولعب كى تركيب استعمال هوئى هے، ليكن يهاں ان الفاظ كى ترتيب بدل دى گئى هے. اس كى وجه يه هے كه يهاں عمر كى تقسيم كے حساب سے انسانى زندگى كے مراحل كا ذكر هو رها هے اور اس حوالے سے لعب يعنى كھيل كھود كا مرحله پهلے آتا هے جبكه اس ميں لهو كا عنصر بعد كى عمر ميں شامل هوتا هے.

جوانى كى اسى عمر ميں انسان پر اپنى شخصيّت كى ظاهرى ٹيپ ٹاپ (زِيْنَة) كا جنون سوار هوتا هے. عمر كے اس مرحلے ميں وه شكل وصورت كے بناؤ سنگھار، ملبوسات وغيره كى وضع قطع، معيار اور فيشن كے بارے ميں بهت حساس هو جاتا هے. پھر اس كے بعد جب عمر ذرا اور بڑھتى هے تو تَفَاخُرٌ بَيْنَكُم كا مرحله آتا هے. يه انسانى زندگى كا چوتھا اور اهم ترين مرحله هے. اس عمر ميں انسان پر هر وقت تفاخر كا بھوت سوار هوتا هے، اور وه عزت، شهرت، دولت، گھر، گاڑى وغيره كے معاملے ميں خود كو هر قيمت پر دوسروں سے برتر اور آگے ديكھنا چاهتا هے. اس كے بعد جب عمر ذرا ڈھلتى هے تو تَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كا دور آتا هے. اس دور ميں انسان كى ترجيحات بدل جاتى هيں. تفاخر كے دور ميں تو سوچ يه تھى كه كچھ بھى هو جائے مونچھ نيچى نهيں هونى چاهيے، ليكن اب سوچ يه هے كه مال آنا چاهيے، مونچھ رهے يا نه رهے اس سے كوئى فرق نهيں پڑتا. اس عمر ميں پهنچ كر انسان اپنے مفاد كے معاملے ميں بهت حقيقت پسند (realistic) هو جاتا هے، بلكه جوں جوں بڑھاپے كى طرف جاتا هے، اس كے دل ميں مال ودولت كى هوس بڑھتى چلى جاتى هے. حتى كه ايك مرحلے پر اسے خود بھى محسوس هو جاتا هے كه اب وه پاؤں قبر ميں لٹكائے بيٹھا هے، مگر اس كى هَلْ مِنْ مَّزِيْد كى خواهش ختم هونے ميں نهيں آتى. انسان كى اسى كيفيت كو سورة التكاثر ميں يوں بيان فرمايا گيا هے: (أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ  حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ) «(لوگو) تم كو (مال كى) كثرت كى طلب نے غافل كر ديا، يهاں تك كه تم نے قبريں جا ديكھيں».

بهرحال وقت كے ساتھ ساتھ انسان كى ترجيحات بدلتى رهتى هيں، ليكن عمر كے هر مرحلے ميں كسى ايك چيز كى دھن اس كے ذهن پر سوار رهتى هے. اس موضوع پر يه قرآن حكيم كى واحد آيت هے اور اس اعتبار سے بهت اهم اور منفرد هے، مگر حيرت هے كه انسانى زندگى كے نفسياتى مراحل كے طور پر اسے بهت كم لوگوں نے سمجھا هے.

آيت كے اگلے حصے ميں انسانى اور نباتاتى زندگى كے مابين پائى جانے والى مشابهت اور مماثلت كا ذكر هے. يه مضمون قرآن مجيد ميں بهت تكرار كے ساتھ آيا هے كه نباتاتى سائيكل (botanical cycle) اور انسانى زندگى كے سائيكل (human life cycle) دونوں ميں بڑى گهرى مشابهت اور مناسبت هے. اس تشبيه سے انسان كو دراصل يه بتانا مقصود هے كه اگر تم اپنى زندگى كى حقيقت سمجھنا چاهتے هو تو كسان كى ايك فصل كے سائيكل كو ديكھ لو، اس فصل كے دورانيے ميں تمهيں اپنى پيدائش، جوانى، بڑھاپے، موت اور مٹى ميں مل كر مٹى هو جانے كا حقيقى نقشه نظر آ جائے گا.

كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ:  «(انسانى زندگى كى مثال ايسى هے) جيسے بارش برستى هے تو اس سے پيدا هونے والى روئيدگى كسانوں كو بهت اچھى لگتى هے»

ثُمَّ يَهِيجُ:  «پھر وه كھيتى اپنى پورى قوت پر آتى هے»

فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا:  «پھر تم ديكھتے هو كه وه زرد هو جاتى هے»

ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا:  «پھر وه كٹ كر چورا چورا هو جاتى هے»

اس تشبيه كے آئينے ميں انسانى زندگى كى مكمل تصوير ديكھى جا سكتى هے. بچه پيدا هوتا هے تو خوشياں منائى جاتى هيں، پھر وه جوان هو كر اپنى پورى قوت كو پهنچ جاتا هے، پھر عمر ڈھلتى هے تو بالوں ميں سفيدى آ جاتى هے اور چهرے پر جھرياں پڑ جاتى هيں، پھر موت آنے پر اسے زمين ميں دبا ديا جاتا هے جهاں وه مٹى ميں مل كر مٹى هو جاتا هے. ليكن تمهيں معلوم هونا چاهيے كه يه تشبيه صرف دنيوى زندگى كى حقيقت كو سمجھنے كے ليے هے. تم اشرف المخلوقات هو، نباتات نهيں هو، تمهارى اصل زندگى تو آخرت كى زندگى هے جوكه دائمى اور ابدى هے اور اس كى نعمتيں اور صعوبتيں بھى دائمى اور ابدى هيں. لهذا عقل اور سمجھ كا تقاضا يهى هے كه تم اپنى آخرت كى فكر كرو.

وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ:  «اور آخرت ميں بهت سخت عذاب هے اور (يا پھر) الله كى طرف سے مغفرت اور (اس كى) رضا هے».

رسول الله صلى الله عليه وسلم كى دعوت كے ابتدائى دور كا ايك خطبه «نهج البلاغة» ميں نقل هوا هے، اس كے اختتامى الفاظ يوں هيں:

«...... ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْإِحْسَانِ إِحْسَانًا وَبِالسُّوْءِ سُوْءًا، وَإِنَّهَا لَجَنَّةٌ أَبَدًا أَوْ لَنَارٌ أَبَدًا»

«..... پھر لازمًا تمهارے اعمال كا حساب هو گا اور پھر لازما تمهيں بدله ملے گا اچھائى كا اچھا اور برائى كا برا، اور وه جنت هے هميشه كے ليے يا آگ هے دائمى».

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ:  «اور دنيا كى زندگى تو سوائے دھوكے كے ساز وسامان كے اور كچھ نهيں هے».

تمهارى دنيوى زندگى كى حقيقت تو بس يهى هے، ليكن تم هو كه اس حقيقت كو فراموش اور نظر انداز كيے بيٹھے هو. تمهارے دل ميں نه الله كى ياد هے اور نه آخرت كى فكر. بس تم اس عارضى اور دھوكے كى زندگى كى آسائشوں ميں مگن اور اسى كى رنگينيوں ميں گُم هو. ياد ركھو! يه طرز عمل غيروں كى پهچان تو هو سكتا هے، ايك بنده مؤمن كے هرگز شايانِ شان نهيں هے. بقولِ اقبال:

كافر كى يه پهچان هے  كه آفاق ميں گُم هے

مؤمن كى يه پهچان كه گُم اس ميں هيں آفاق!

UP
X
<>