April 25, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 23

لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰكُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨ

یہ اس لئے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے، اُس پر تم غم میں نہ پڑو، اور جو چیز اﷲ تمہیں عطا فرمادے، اُس پر تم اِتراؤ نہیں ، اور اﷲ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اِتراہٹ میں مبتلا ہو، شیخی بگھارنے والا ہو

آيت 23:  لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ:  «تاكه تم افسوس نه كيا كرو اس پر جو تمهارے هاتھ سے جاتا رهے».

كوئى اچھا موقع هاتھ سے نكل جانے پر انسان ره ره كر افسوس كرتا اور پچھتاتا هے كه اگر ميں اس وقت يوں كر ليتا تو ميرا يه كام هو جاتا، اگر فلاں شخص فلاں وقت فلاں ركاوٹ كھڑى نه كر ديتا تو ميں فلاں نقصان سے بچ جاتا وغيره وغيره. ايسے پچھتاوے بعض اوقات زندگى كا روگ بن جاتے هيں، ليكن اگر الله اور اس كے فيصلوں پر انسان كا ايمان مضبوط هو تو وه اپنے بڑے سے بڑے نقصان كو بھى يه كهه كر بھلا ديتا هے كه الله تعالى كو ميرے حق ميں ايسا هى منظور تھا اور اس چيز كے ميرے هاتھ سے نكل جانے ميں هى خير تھى، كيوں كه ميرے ليے كيا بهتر هے اور كيا بهتر نهيں هے اس كا علم تو الله تعالى هى كو هے. سورة البقرة كى يه آيت اس بارے ميں بهت واضح هے:

(وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)

«اور هو سكتا هے كه تم كسى شے كو نا پسند كرو اور وه تمهارے ليے بهتر هو، اور هوسكتا هے كه تم كسى چيز كو پسند كرو دراں حاليكه وهى تمهارے ليے برى هو. اور الله جانتا هے، تم نهيں جانتے».

وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ:  «اور اس پر اِترايا نه كرو جو وه تمهيں دے دے، اور الله كو بالكل پسند نهيں هيں اِترانے والے اور فخر كرنے والے».

ايسى كسى صورت ميں انسان كے ليے اِترانے كا جواز اس ليے نهيں هے كه الله تعالى كى طرف سے اسے جو كچھ بھى ديا جاتا هے دراصل اس كى آزمائش كے ليے ديا جاتا هے. اس حوالے سے هميں اس حقيقت كو كسى وقت بھى فراموش نهيں كرنا چاهيے كه اس دنيا ميں هميں جو نعمت، صلاحيت يا دولت ملتى هے اس كے ليے هميں جواب ده هونا هے. چنانچه جس انسان كے پاس دنيوى نعمتوں كى جس قدر بهتات هو گى جواب دهى كے حوالے سے اس كى ذمه دارى بھى اسى حد تك بڑھ جائے گى. اكاؤنٹس كى زبان ميں ايسى ذمه دارى كو (liability) كها جاتا هے. جب كسى محكمے يا ادارے كى (balance sheet) تيار هوتى هے تو اس ادارے كو ملنے والا سرمايه liability كے كھاتے ميں لكھا جاتا هے. كھاتے ميں liability كا اندراج هو جانے كے بعد اس كى ايك ايك پائى كا حساب دينا اس ادارے كى ذمه دارى هے. اسى طرح الله تعالى انسان كو دنيا ميں جو كچھ ديتا هے وه اس كے ذمے liability هے. كل قيامت كے دن اس ميں سے هر چيز كا آڈٹ هونا هے. اس دن الله تعالى بندے سے پوچھے گا كه تمهيں جو مال ديا گيا تھا بتاؤ اس كا تم نے كيا كيا؟ ميرى طرف سے دى گئى قوت، ذهانت اور دوسرى صلاحيتوں كو كهاں كهاں صرف كيا؟ دنيا بنانے ميں كھپايا يا آخرت كمانے ميں لگايا؟ اس احتساب يا آڈٹ كا تصور كركے هم ميں سے هر ايك كو اپنے اپنے كھاتے كى فكر كرنى چاهيے. جيسے آج همارے بهت سے لوگ ورلڈ بينك، آئى ايم ايف اور بين الاقوامى سطح كے دوسرے اداروں ميں بڑے بڑے عهدوں پر فائز هيں اور لاكھوں ڈالر تنخواه وصول كر رهے هيں، ان كے نزديك يقينًا يه بهت بڑے اعزاز كى بات هے، ليكن ايسے لوگوں كو سوچنا چاهيے كه وه كس كى چاكرى كر رهے هيں؟ اور كس كى رتھ ميں گھوڑے بن كر جتے هوئے هيں؟ ظاهر هے وه باطل نظام كى خدمت كر رهے هيں اور اسى نظام سے اپنى خدمت كا معاوضه وصول كر رهے هيں. پھر ايسے لوگوں كو يه بھى سوچنا چاهيے كه آخرت كے آڈٹ كے وقت وه اپنى balance sheet كو كيسے justify كريں گے.

چنانچه انسان كو مال ودولت اور دوسرى نعمتوں پر اترانے كے بجائے ان كے حساب كتاب كى فكر كرنى چاهيے اور يه سمجھنا چاهيے كه يه چيزيں اسے الله تعالى كى طرف سے آزمائش كے طور پر دى گئى هيں. اگر وه اس آزمائش ميں ناكام هو گيا تو يهى نعمتيں آخرت ميں اس كے گلے كا طوق بن جائيں گى. اس حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمه الله كا ايك واقعه بهت عبرت انگيز هے. آپ رحمه الله كو خليفه وقت كى طرف سے «خلقِ قرآن» كے مسئلے پر جيل ميں ڈالا گيا. خليفه آپ رحمه الله سے اپنى مرضى كا فتوى حاصل كرنا چاهتا تھا اور اس كے ليے خليفه كے حكم پر جيل ميں آپ رحمه الله پر بے پناه تشدد هوا. روايات ميں آتا هے كه جس انداز ميں آپ رحمه الله كو پيٹا جاتا تھا ايسى مار كسى هاتھى كو پڑتى تو وه بھى بلبلا اٹھتا، مگر اس بے رحم تشدد كو آپ رحمه الله نے ايسے حوصلے اور صبر سے برداشت كيا كه كبھى آنكھوں ميں آنسو تك نهيں آئے. مگر جب نئے خليفه كے دور ميں آپ رحمه الله كو جيل سے رها كيا گيا اور خليفه كے ايلچى آپ رحمه الله كى خدمت ميں اشرفيوں كے تھيلے لے كر حاضر هوئے تو ان تھيلوں كو ديكھ كر آپ رو پڑے، آپ نے روتے هوئے الله كے حضور عرض كى كه اے الله! يه آزمائش بهت سخت هے، ميں اس سے عهده برآ هونے كے قابل نهيں هوں، مجھے اس امتحان ميں مت ڈال. اس حوالے سے دوسرى انتها پر برصغير كے قوم فروشوں كى مثال بھى همارے سامنے هے. تاريخ شاهد هے كه برصغير ميں انگريزوں نے بڑى بڑى جاگيروں، عهدوں اور خطابات كے ذريعے يهاں كے لوگوں كو خريدا اور حكمرانوں كے هاتھوں بكنے كے بعد وه لوگ اپنى قوم سے غدّارى كر كے اپنے آقاؤں كى حكومت مضبوط كرنے كے ليے جدوجهد كرتے رهے. بهرحال يه هر انسان كا اپنا فيصله هے كه اس كى ترجيح دنيا هے يا آخرت؟

UP
X
<>