April 25, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 25

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ ۭاِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب بھی اُتاری، اور ترازو بھی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ، اور ہم نے لوہا اُتاراجس میں جنگی طاقت بھی ہے، اور لوگوں کیلئے دوسرے فائدے بھی، اور یہ اس لئے تاکہ اﷲ جان لے کہ کون ہے جو اُس کو دیکھے بغیر اُس (کے دین) کی اور اُس کے پیغمبروں کی مدد کرتا ہے۔ یقین رکھو کہ اﷲ بڑی قوت کا، بڑے اِقتدار کا مالک ہے

اب آرهى هے وه آيت جو اس پورى سوره مباركه كا نقطه عروج يا ذروه سنام (climax) هے. اس آيت كا مضمون خصوصى طور پر آج كے مسلمانوں كے ليے بهت اهم هے. اس ليے آج همارے هاں دين كا اصل تصور مسخ هو چكا هے اور يه آيت دين كے اصل تصور كو اُجاگر كرتى هے. دراصل انگريزوں كى غلامى كے دور ميں هم مسلمانوں كے ذهنوں ميں دين كا عام تصور يهى تھا كه حكومت انگريز كى هے تو هوتى رهے، هميں كيا! هم نے تو نمازيں پڑھنى هيں اور روزے ركھنے هيں. اس دور ميں برصغير كے ايك بهت بڑے عالم نے كها تھا كه هميں كوئى ايسا كام نهيں كرنا چاهيے جس سے انگريزوں كو همارى طرف سے كوئى تشويش لاحق هو، اس ليے كه انهوں نے هميں مذهبى آزادى دے ركھى هے. يعنى انگريز هميں نمازيں پڑھنے، روزے ركھنے، حج ادا كرنے اور داڑھياں ركھنے سے نهيں روكتا. مذهبى آزادى كى اسى وكالت پر علامه اقبال نے يه پھبتى چست كى تھى:

ملّا كو جو هے هند ميں سجدے كى اجازت

ناداں يه سمجھتا هے كه اسلام هے آزاد!

ظاهر هے انگريز مسلمانوں كو مراسمِ عبوديت ادا كرنے اور داڑھياں بڑھانے سے كيوں منع كرتے؟ اس سے انهيں بھلا كيا خطره هو سكتا تھا. ملك ميں قانون تو تاجِ برطانيه كا نافذ تھا، ديوانى اور فوج دارى عدالتيں اسى قانون كے مطابق فيصله كر رهى تھيں. اس ماحول ميں اسلام كهاں تھا اور قرآنى قوانين كى كيا حيثيت تھى؟ عام مسلمانوں كو اس سے كوئى سروكار نهيں تھا. وه تو بس اسى پر مسرور ومطمئن تھے كه انهيں «مكمل» مذهبى آزادى حاصل هے. بهرحال انگريز كى غلامى كا نتيجه يه نكلا كه همارا تصورِ دين سكڑتا سكڑتا صرف چند عبادات اور رسومات (rituals) تك محدود هو گيا. اسى وجه سے همارے هاں آج بھى تصورِ دين يهى هے كه نماز پڑھو، روزے ركھو، هو سكے تو حج كرو، قرآن خوانى كى محفليں سجاؤ اور بس! اور جهاں تك سودى كاروبار اور حرام خوريوں كا تعلق هے يه دنيوى معاملات هيں، اسلام كا ان سے كيا لينا دينا؟ هاں سال به سال عمره كر كے پچھلے گناهوں سے پاك هو جايا كرو، جيسے هندو گنگا ميں نها كر اپنے زعم ميں اپنے سارے پاپ دھو ڈالتے هيں.

اس پس منظر كو ذهن ميں ركھ كر جب آپ اس آيت كا مطالعه كريں گے تو آپ كو دين كا روايتى تصور لڑكھڑاتا هوا محسوس هو گا. اس آيت كا دوسرا پهلو يه هے كه اس ميں ڈنكے كى چوٹ پر انقلاب كى بات كى گئى هے، بلكه واقعه يه هے كه ايسى بے باك اور عرياں انقلابى عبارت پورى انسانى تاريخ كے كسى انقلابى لٹريچر ميں موجود نهيں هے. اس تمهيد كے بعد آئيے اب اس آيت كا مطالعه كريں اور اس كے ايك ايك لفظ كو سمجھنے كى كوشش كريں.

آيت 25:  لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ:  «هم نے بھيجا اپنے رسولوں كو واضح نشانيوں كے ساتھ»

وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ:  «اور هم نے ان كے ساتھ كتاب اور ميزان اُتارى»

يهاں تين چيزوں كا تذكره فرمايا گيا هے جو رسولوں كے ساتھ بھيجى گئيں: (1) بينات. (2) كتاب، اور (3) ميزان ---- ان ميں سب سے پهلى چيز «بيّنات» هے. «بيِّن» اُس شے كو كهتے هيں جو از خود ظاهر اور نماياں هو اور اسے كسى دليل اور وضاحت كى حاجت نه هو. ع: «آفتاب آمد دليلِ آفتاب!». يه لفظ عام طور پر رسولوں كے تذكرے ميں معجزات كے ليے آتا هے.

«كتاب» كا لفظ عام فهم اور بالكل واضح هے، جبكه «ميزان» سے مراد الله تعالى كا عطا كرده نظام هے جس ميں حقوق وفرائض كا توازن موجود هے. كسى معاشرے ميں اگر حقوق وفرائض كے مابين توازن هو گا تو وه معاشره صحيح رهے گا، اور اگر اس كے اندر عدمِ توازن راه پا گيا تو اسى كا نام ظلم، عدوان، زيادتى اور ناانصافى هے.

لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ:  «تاكه لوگ انصاف پر قائم هوں».

يه هے اس كتاب يعنى قرآن مجيد كے نزول كا اصل مقصد. اب اس كے مقابلے ميں اپنى موجوده صورت كا بھى جائزه ليں كه هم اپنى انفرادى اور اجتماعى زندگيوں سے قرآن كو كس حد تك «بے دخل» كر چكے هيں. كيا قرآن اس ليے نازل هوا تھا كه قرآن خوانى كى مجالس سجا لى جائيں؟ يا حسن قراءت كى محافل كا اهتمام كر ليا جائے؟ يا اس كى آيات كى خطاطى كى نمائشيں لگائى جائيں، يا چاليس من وزنى قرآن سونے كى تاروں سے لكھ كر لوگوں كى زيارت كے ليے ركھ ديا جائے ---- اور زندگى باطل نظام كے تحت هى بسر كى جائے؟ اس حوالے سے مولانا ماهر قادرى كى زبان سے قرآن كا يه شكوه كس قدر حقيقت پر مبنى هے:

يه ميرى عقيدت كے دعوے،   قانون په راضى غيروں كے

يوں بھى مجھے رسوا كرتے هيں، ايسے بھى ستايا جاتا هوں!

ظاهر هے قرآن تو ايك ضابطه زندگى اور ايك نظامِ حكومت لے كر آيا هے. يه اپنے ماننے والوں سے تقاضا كرتا هے كه وه اس كے نظام كو عملى طور پر اپنے ملك اور معاشرے ميں قائم كريں، اس كى لائى هوئى ميزان كو نصب كريں اور اس كى دى هوئى شريعت كے مطابق اپنے فيصلے كريں. ع:

  «گر يه نهيں تو  بابا پھر سب كهانياں هيں!»

اس آيت كا مطالعه كرتے هوئے يهاں درج ذيل آيات كو بھى دهرانے كى ضرورت هے، سوره آل عمران ميں الله تعالى نے خود اپنے بارے ميں فرمايا: (قَائِمًا بِالْقِسْطِ) (آيت: 18) كه ميں عدل وقسط كو قائم كرنے والا هوں. سورة النساء ميں اهلِ ايمان كو باقاعده حكم ديا گيا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ) (آيت: 135). «اے اهلِ ايمان! كھڑے هو جاؤ پورى قوت كے ساتھ عدل كو قائم كرنے كے ليے الله كے گواه بن كر». سورة المائدة ميں الفاظ كى ترتيب بدل كر يهى حكم پھر سے دهرايا گيا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ) (آيت:8) «اے اهلِ ايمان! الله كى خاطر راستى پر قائم رهنے والے اور انصاف كى گواهى دينے والے بن جاؤ». پھر سورة الشورى ميں حضور صلى الله عليه وسلم سے اعلان كروايا گيا: (وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ) (آيت: 15)  «مجھے حكم هوا هے كه ميں تمهارے مابين عدل قائم كروں». پھر سورة الشورى هى ميں فرمايا گيا: (اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ) (آيت: 17) «الله وه هستى هے جس نے نازل فرمائى كتاب حق كے ساتھ اور ميزان بھى». يعنى سورة الشورى كى اس آيت ميں بھى كتاب اور ميزان نازل كرنے كا ذكر ايك ساتھ آيا هے.

اس حوالے سے سورة المائدة كى يه آيت خصوصى اهميت كى حامل هے:  (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ) (آيت: 68)  «(اے نبى صلى الله عليه وسلم!) آپ كهه ديجيے كه اے اهلِ كتاب! تمهارى كوئى حيثيت نهيں هے جب تك تم قائم نهيں كرتے تورات اور انجيل كو اور اُس كو جو كچھ تمهارى طرف نازل كيا گيا هے تمهارے رب كى طرف سے». سورة المائدة كى اس آيت كے مطالعه دوران ميں نے كها تھا كه مسلمان «تورات وانجيل» كى جگه لفظِ قرآن ركھ كر اس آيت كو اس طرح پڑھ كر ديكھيں اور پھر الله تعالى كے سامنے خود هى اپنى حيثيت كا تعين كريں: «قُلْ يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا القُرْآنَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ» كه اے قرآن والو! تمهارى كوئى حيثيت نهيں هے جب تك تم قائم نهيں كرتے قرآن كو اور اس كو جو تمهارے رب كى طرف سے نازل كيا گيا هے --- تم قرآن كى تلاوت كر كے سمجھ ليتے هو كه تم نے قرآن كا حق ادا كر ديا، يا تراويح ميں قرآن ختم كر كے فخر محسوس كرتے هو كه تم نے بڑا تير مار ليا، چاهے تم نے اس كا ايك حرف بھى نه سمجھا هو. ياد ركھو! جب تك تم قرآن كے احكام كو عملى طور پر خود پر نافذ نهيں كرتے هو اور قرآن كے نظامِ عدل كو اپنے ملك ومعاشرے ميں قائم نهيں كرتے هو، قرآن پر ايمان كے تمهارے زبانى دعوے كى كوئى حيثيت نهيں.

قرآن كے نظامِ عدل وقسط كے حوالے سے يه حقيقت بھى مد نظر رهنى چاهيے كه معاشرے كے مراعات يافته طبقات كے ليے يه نظام كسى قيمت پر قابلِ قبول نهيں هو گا. اس ليے جوں هى اس كے قيام كے ليے ٹھوس كوششوں كا آغاز هو گا يه طبقات ان كوششوں كى راه ميں ركاوٹيں كھڑى كرنے كے ليے آ موجود هوں گے. ظاهر هے جن سرمايه داروں اور جاگيرداروں كے مفادات (vested interests) پرانے نظام كے ساتھ وابسطه هيں، وه كب چاهيں گے كه معاشرے ميں عدل وانصاف كا دور دوره هو. اگرچه اس حوالے سے بھى تاريخ ميں استثنائى مثاليں موجود هيں. مثلًا حضرت ابو بكر صديق اور حضرت عثمان غنى رضي الله عنهما اپنے معاشرے كے اونچے طبقے سے تعلق ركھتے تھے، اس كے باوجود ان دونوں حضرات نے اپنے مفادات، كاروبار اور اسٹيٹس كى پروا كيے بغير حق كى آواز پر بلا تاخير لبيك كها. ليكن مجموعى طور پر اشرافيه اور دولت مند طبقه هميشه نظامِ عدل كے قيام كى كوشش ميں سب سے بڑى ركاوٹ بنتا هے. مراعات يافته طبقات كى سرتوڑ كوشش هوتى هے كه موجوده نظام كے اندر كوئى تبديلى نه آئے. چنانچه باطل نظام كى بيخ كنى اور نظامِ عدل وقسط كے قيام كى جدوجهد كے ليے اس كى راه ميں ركاوٹ ڈالنے والوں كو راستے سے هٹانا بھى ضرورى هے. چنانچه آيت كے اگلے حصے ميں ايسے عناصر كى سركوبى كا نسخه بتايا جا رها هے:

وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ:  «اور هم نے لوها بھى اتارا هے، اس ميں شديد جنگى صلاحيت هے اور لوگوں كے ليے دوسرى منفعتيں بھى هيں».

نوٹ كيجيے! نه كوئى لگى لپٹى بات كى گئى هے اور نه هى معذرت خواهانه اسلوب اپنايا گيا هے، جو بات كهنا مقصود تھى دوٹوك انداز ميں ڈنكے كى چوٹ كهى گئى هے. اسى ليے ميں نے كها تھا كه يه «عرياں ترين» انقلابى عبارت هے. ظاهر هے جب انقلاب اپنا راسته بنائے گا اور جب ظالمانه نظام كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنے كا مرحله آئے گا تو خون بھى ضرور بهے گا اور كچھ سر بھى كچلنے پڑيں گے. يه انقلاب كا ناگزير مرحله هے، اس كے بغير انقلاب كى تكميل ممكن هى نهيں. يه تو الله تعالى كے نظامِ عدل كے ليے انقلاب كى بات هو رهى هے جو سارى كائنات كا خالق ومالك هے. يهاں تو هم آئے دن ديكھتے هيں كه دنيا ميں خود انسان عدلِ انسانى كے اپنے تصور كى ترويج وتنفيذ كے ليے طاقت كا بے دريغ استعمال كرتے هيں، مخالف ممالك كا گھيراؤ كرتے هيں، ان پر بے رحمانه پابندياں عائد كرتے هيں. «امن كے ليے جنگ» (war for peace) كا نعره لگا كر كمزوروں پر چڑھائى كرتے هيں اور پھر ملكوں كے ملك برباد كر كے ركھ ديتے هيں. اور ستم بالائے ستم يه كه اس قتل وغارت اور بربريت كو وه وقت كى اهم ضرورت اور عين انصاف سمجھتے هيں.

اس كائنات كا خالق ومالك بھى الله هے اور زمين پر حكمرانى كا حق بھى اسى كا هے. اُسى نے اپنى تمام مخلوق كو اپنا تابع فرمان بنايا هے اور اُسى نے انسان كو ايك حد تك احتيار ديا هے. الله تعالى كے عطا كرده اسى اختيار كى وجه سے انسان اكثر من مانى كرتے هوئے اُس كى حكمرانى كے مقابلے ميں اپنى حكمرانى قائم كرنے كى كوشش كرتا هے اور اسى وجه سے زمين ميں فساد برپا هوتا هے. ظاهر هے الله تعالى فساد كو پسند نهيں كرتا، وه زمين ميں عدل وانصاف كى ترويج اور اپنے قانون كى حكمرانى چاهتا هے. اس كے ليے اس كى مشيت يهى هے كه اُس كے حقِ حكمرانى كو چيلنج كرنے والے باغيوں كو حق كى طاقت كے ذريعے سے كچل ديا جائے: (بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ) (الانبياء: 18)  «بلكه هم حق كو دے مارتے هيں باطل پر تو وه اس كا بھيجه نكال ديتا هے، تو جبھى وه نابود هو جاتا هے». بهرحال الله تعالى چاهتا هے كه اُس كا يه كام اس كے نام ليوا كريں. اُس كے نام ليوا حق كے علمبردار بن كر الله كے باغيوں كا مقابله كريں، باطل نظام كو بزور بازو اكھاڑ پھينكيں اور الله كى زمين پر الله كى حكمرانى كو يقينى بنائيں.

آيت زير مطالعه ميں لوهے كا ذكر اسى حوالے سے آيا هے كه اهلِ حق حالات وزمانه كى ضرورت كے مطابق اپنے تمام وسائل بروئے كار لاتے هوئے سامانِ حرب تيار كريں، رائج الوقت ٹيكنالوجى سے استفاده كريں اور باطل كے مقابلے كے ليے مطلوبه طاقت فراهم كريں. ليكن اس انقلابى عمل ميں سب سے اهم سوال اَفرادى قوت كى فراهمى كا هے، اور اس عمل كى ابتدا دعوت وتبليغ سے هو گى. رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مكه ميں باره سال تك مسلسل دعوت وتبليغ كا كام كيا، حق كو قبول كرنے والے افراد كى تربيت كى، انهيں منظم كيا اور جب مطلوبه اَفرادى قوت فراهم هو گئى تو آپ صلى الله عليه وسلم نے الله كى مشيت كے عين مطابق طاقت كے اس «كوڑے» كو باطل كے سر پر يوں دے مارا كه اس كا بھيجه نكال كے ركھ ديا. آج بھى يه كام اگر هو گا تو اسى طريقے سے هو گا جس طريقے سے حضور صلى الله عليه وسلم نے اور آپ كے صحابه كرام رضى الله عنهم نے كيا. آج بھى اهلِ حق كو اسى طرح جانيں قربان كرنا هوں گى، تكليفيں جھيلنا پڑيں گى، گھر بار چھوڑنے پڑيں گے اور جان ومال كے نقصانات برداشت كرنا پڑيں گے. گويا يه انتهائى مشكل كام هے اور اهلِ حق كى بے دريغ قربانيوں كے بغير اس كا پايه تكميل تك پهنچنا ممكن نهيں.

وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ:  «اور تاكه الله جان لے كه كون مدد كرتا هے اُس كى اور اُس كے رسولوں كى غيب ميں هونے كے باوجود. يقينًا الله بهت قوت والا، بهت زبردست هے».

«تاكه الله جان لے» كا مفهوم يه هے: تاكه الله تعالى دكھا دے، ظاهر كر دے، مميّز كر دے كه كون هے وه جو غيب كے باوجود الله اور اس كے رسولوں كى مدد كرتا هے. گويا حق وباطل كى جنگ كے دوران جو مرادانِ حق لوهے كى طاقت كو هاتھ ميں لے كر الله كے دين كے غلبے كے ليے ميدان ميں آئيں گے وهى الله اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم كے مددگار هوں گے. دراصل الله كے دين كو غالب كرنا بنيادى طور پر حضور صلى الله عليه وسلم كا فرضِ منصبى هے اور الله تعالى نے آپ كو اسى مقصد كے ليے مبعوث فرمايا: (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ) (الصّف: 9)  «وهى هے (الله) جس نے بھيجا اپنے رسول (محمد صلى الله عليه وسلم) كو الهدى اور دينِ حق كے ساتھ، تاكه وه غالب كر دے اس كو كُل كے كُل دين پر». الله تعالى چاهتا هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كے اس مشن ميں تمام اهلِ ايمان آپ كے دست وبازو بنيں، بلكه سورة الصّف ميں تو اس كے ليے براه راست حكم آيا هے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ) آيت: 14. «اے اهلِ ايمان! الله كے مددگار بن جاؤ».

يه مضمون سورة الصّف ميں مزيد وضاحت كے ساتھ آئے گا، ليكن اس حوالے سے يهاں يه اهم نكته سمجھ ليجيے كه آيت زير مطالعه ميں غلبه دين كى تكميل اور نظامِ عدل وقسط كى تنفيذ كے ليے تين چيزوں كا ذكر هوا هے: بينات، كتاب اور ميزان: (لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ) يعنى حضور صلى الله عليه وسلم سے پهلے رسولوں كو اس مشن كے ليے بينات (معجزات)، كتاب اور ميزان كے ساتھ بھيجا جاتا رها، جبكه حضور صلى الله عليه وسلم كو اس مشن كے ليے صرف دو چيزيں (الهدى اور دين الحق) عطا كى گئيں: (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ). (التوبة: 33، الفتح: 28، اور الصّف: 9). اس كا مطلب يه هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كے ليے بيّنات (معجزات) اور الكتاب ايك هو گئے. يعنى الهدى (قرآن) آپ كى كتاب  بھى هے، اسى ميں قانون هے اور يهى آپ صلى الله عليه وسلم كا سب سے بڑا معجزه بھى هے، جبكه آپ كى رسالت ميں ميزان (شريعت) مكمل هو كر «دين الحق» كى شكل اختيار كر چكى هے.

 

UP
X
<>