April 19, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 26

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ

اور ہم نے نوح کو اور اِبراہیم کو پیغمبر بنا کر بھیجا، اور ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا۔ پھر ان میں سے کچھ تو ہدایت پر آگئے، اور ان میں سے بہت سے لوگ نافرمان رہے

اس سوره مباركه كا اصل مضمون تدريجًا آگے بڑھتا هوا آيت: 25 پر اپنے نقطه عروج (climax) پر پهنچ گيا هے. اب آئنده آيات ميں گويا اس مضمون كا ضميمه اور تكمله آ رها هے (قبل ازيں كبھى ميں بغرضِ تفهيم اس كے ليے anti climax كى اصطلاح استعمال كرتا رها هوں، ليكن اب ميں سمجھتا هوں كه يه اصطلاح مناسب نهيں هے). موضوع كے اهميّت كے پيش نظر مناسب هو گا كه متعلقه آيات كے مطالعے سے پهلے اس مضمون كى روح كو اچھى طرح سے سمجھ ليا جائے. ظاهر هے زمين پر الله كے قانون كى حكمرانى اور معاشرے ميں عدل وانصاف كى ترويج شيطان پر بهت بھارى هے. اس ليے اس نے اس «انقلاب» كا راسته روكنے كے ليے يه چال چلى كه محض اهلِ ايمان كى توجه تركِ دنيا اور رهبانيت كى طرف مبذول كرا دى، تاكه اسے انسانوں كے معاشرے ميں ننگا ناچ ناچنے كى كھلى چھٹى مل جائے.

اهلِ ايمان كے دلوں ميں الله كى محبت، دنيا سے بے رغبتى اور آخرت كى طلب كے جذبے كا نتيجه تو يه نكلنا چاهيے كه وه الله كى فوج كے سپاهى بن كر اقامتِ دين كى جدوجهد كے علمبردار بن جائيں اور نتائج سے بے پرواه هو كر هر زماں، هر مكاں شيطانى قوتوں كے خلاف برسر پيكار رهيں، ليكن شيطان نے ايسے لوگوں كو رهبانيت كا سبق پڑھا ديا كه الله والوں كا دنيا كے جھميلوں سے كيا واسطه؟ انهيں تو چاهيے كه وه دنيا اور علائقِ دنيا كو چھوڑ كر جنگلوں اور پهاڑوں كى غاروں ميں بيٹھ كر الله كى عبادت كريں اور الله كے هاں اپنے درجات بلند كريں. ظاهر هے ايسى رهبانيت دين كى اصل روح كے خلاف هے. غلبه دين كى جدوجهد كى راه ميں مصيبتيں جھيلنے، اس ميدان ميں شيطانى قوتوں سے نبرد آزما هونے كے ليے مال وجان كى قربانياں دينے اور خانقاهوں ميں بيٹھ كر عبادت ورياضت كى سختياں برداشت كرنے ميں زمين وآسمان كا فرق هے. الله كى راه ميں جهاد كى سختياں برداشت كرنے سے معاشرے سے ظلم وناانصافى كا خاتمه هوتا هے، انسانيت عدل وانصاف كے ثمرات سے بهره ور هوتى هے اور ماحول ميں فلاح وخوش حالى كے پھول كھلتے هيں، جبكه رهبانيت كى راه ميں اُٹھائى گئى تكاليف سے دنيا اور اهلِ دنيا كو كسى قسم كا فائده پهنچنے كا كوئى امكان نهيں. بهرحال شيطان كا يه وار عيسائيت كے حوالے سے بهت كارگر ثابت هوا. اس كے نتيجے ميں عيسائيوں كے هاں نه صرف خانقاهى نظام كو بهت مقبوليت حاصل هوئى بلكه الله كى خوشنودى حاصل كرنے كے ليے «رهبانيت» اعلى ترين ذريعه اور وسيله قرار پائى. (histry of christian monasticism پر لكھى گئى يورپى مصنفين كى بڑى بڑى ضخيم كتابيں عيسائى راهبوں اور رهبانيت كے بارے ميں عجيب وغريب تفصيلات سے بھرى پڑى هيں).

اس كے بعد اسلام ميں جب خلافت كى جگه ملوكيت نے لے لى اور اِحيائے خلافت كى چند كوششيں ناكامى سے دو چار هوئيں تو مسلمانوں كے هاں بھى رهبانيت كے طور طريقے رائج هونا شروع هو گئے. اس كى عملى صورت يه سامنے آئى كه مخلص اهلِ ايمان اور اهلِ علم لوگ بادشاهوں اور سلاطين كے رويّے كى وجه سے اُمت كے اجتماعى معاملات سے لاتعلق هو كر گوشه تنهائى ميں جا بيٹھے. البته ان كے شاگردوں اور عقيدت مندوں نے ان سے اكتسابِ فيض كا سلسله جارى ركھا. اسى طرح رفته رفته اهل الله اور اهلِ علم كى مسندوں نے خانقاهوں كى شكل اختيار كر لى. سلاطين واُمرا نے اپنے مفاد كے ليے ان خانقاهوں كى سرپرستى كرنا شروع كر دى. ايسى خانقاهوں كے ليے بڑى بڑى جاگيريں مختص كر دى گئيں، تاكه خانقاه اور اس سے متعلقه تمام لوگوں كے اخراجات احسن طريقے سے پورے هوتے رهيں اور يه لوگ حكومت كے معاملات ميں دخل اندازى كرنے كے بجائے اطمينان كے ساتھ چله كشيوں اور اپنى روحانى منازل طے كرنے ميں مصروف ومشغول رهيں. دوسرى طرف ان خانقاهوں سے متعلقه لوگوں كے هاں بھى رفته رفته دين ودنيا كا يه تصور جڑ پكڑتا گيا كه حكومت كرنا اور اجتماعى معاملات نپٹانا سلاطين وامرا كا كام هے، هميں ان معاملات سے كيا سروكار؟ همارا كام تو دينى تعليمات كى اشاعت اور لوگوں كى روحانى اصلاح كرنا هے، تاكه وه اچھے مسلمان اور الله كے مقرب بندے بن سكيں. يوں دينِ اسلام كا اصل تصور دھندلاتا گيا اور اس كى جگه خانقاهى نظام كى حوصله افزائى هوتى رهى. دين كا درست تصور اور انبيا ورسل كى بعثت كا اصل مقصد تو وهى هے جو هم گذشته آيات ميں پڑھ چكے هيں: (لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ) «تاكه لوگ عدل وانصاف پر قائم هو جائيں».

چنانچه آئنده آيات ميں ايك تو يه نكته واضح كيا گيا هے كه انسانيت نے رهبانيت كا غلط موڑ كب اور كيسے مڑا، اور ساتھ هى مسلمانوں كو متنبه كيا جا رها هے كه اے مسلمانو! بے شك دنيا سے بے رغبتى اختيار كرنا اور دنيا كے مقابلے ميں آخرت بنانے كى فكر اختيار كرنا هى دين كا اصل جوهر هے، ليكن اس كا يه مطلب هرگز نهيں كه تم راهب بن كر تمدن كى زندگى كو خيرباد كهه دو، بن باس لے لو، اور جنگلوں ميں جا كر چلے كاٹنا شروع كر دو، پهاڑوں كى چوٹيوں اور غاروں ميں جا كر تپسيائيں كرو، يا خانقاهوں ميں گوشه نشين هو جاؤ. تمهيں تو دنيا كى منجدھار ميں رهتے هوئے دوسروں كو زندگى كى ضمانت فراهم كرنى هے. تمهيں تو جهاد في سبيل الله كے ذريعے دنيا ميں حق كا بول بالا كرنا هے. ظلم ونا انصافى كو جڑ سے اكھاڑ كر معاشرے ميں عدل وانصاف كا نظام قائم كرنا هے، اور اپنے اردگرد ايسا ماحول پيدا كرنا هے جس ميں مظلوم كو اس كا حق ملے اور ظالم كو سر چھپانے كى جگه نه مل سكے. اس كے ليے تمهارے سامنے اُسوه رسول الله صلى الله عليه وسلم اور آپ كے صحابه كرام رضي الله عنهم كا قائم كرده معيار بطور نمونه موجود هے.

حضور صلى الله عليه وسلم نے عرب كے معاشرے كو حق وانصاف كا جو معيار عطا كيا تھا اس كى جھلك حضرت ابو بكر صدّيق رضي الله عنه كى اس تقرير ميں بھى ديكھى جا سكتى هے جو آپ نے لوگوں سے بيعتِ خلافت لينے كے فورًا بعد كى تھى. آپ رضي الله عنه نے بحيثيت امير المؤمنين اپنے پهلے خطاب ميں عدل وانصاف كے بارے ميں اپنى ترجيح واضح كرتے هوئے فرمايا تھا: «لوگو! تمهارا كمزور شخص ميرے نزديك بهت قوى هو گا جب تك كه ميں اسے اس كا حق نه دلوا دوں، اور تمهارا قوى شخص ميرے نزديك بهت كمزور هو گا جب تك كه ميں اس سے كسى كا حق وصول نه كر لوں». اسى طرح اس ضمن ميں حضرت ربعى بن عامر رضي الله عنه كے وه الفاظ بھى بهت اهم هيں جو آپ نے ايرانى افواج كے سپه سالار رستم كو مخاطب كرتے هوئے كهے تھے. قادسيه كے مقام پر اسلامى افواج كے سپه سالار سعد بن ابى وقاص رضي الله عنه نے جنگ سے پهلے ايرانيوں كے ساتھ مذاكرات كے ليے حضرت ربعى بن عامر رضي الله عنه كو بھيجا تھا. رستم نے ان سے سوال كيا تھا كه تم لوگ يهاں كيا لينے آئے هو؟ اس پر انهوں نے اپنے مشن كى وضاحت ان الفاظ ميں كى تھى:

إِنَّ اللهَ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ رَبِّ الْعِبَادِ، وَمِنْ ضَيْقِ الدُّنْيَا إِلَى سِعَةِ الآخِرَةِ وَمِنْ جَوْرِ الأَدْيَانِ إِلَى عَدْلِ الإِسْلَامِ.

«هميں الله نے بھيجا هے تاكه هم بندوں كو بندوں كى غلامى سے نكال كر بندوں كے رب كى غلامى ميں لے آئيں، اور انهيں دنيا كى تنگى سے نكال كر آخرت كى كشادگى سے هم كنار كريں، اور باطل نظاموں سے نجات دلا كر اسلام كے عادلانه نظام سے روشناس كرائيں».

يه هے اس مضمون كا لُب لباب جو اس سورت كے آخر ميں مركزى مضمون كے ضميمے كے طور پر بيان هوا هے.

اب اگلى آيت سے اس مضمون كى تمهيد شروع هو رهى هے.

آيت 26:  وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ:  «اور هم نے هى بھيجا تھا نوح كو بھى اور ابراهيم كو بھى»

وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ:  «اور هم نے انهى دونوں كى نسل ميں ركھ دى نبوت اور كتاب»

حضرت نوح عليه السلام كى قوم پر عذاب كے بعد انسانيت كى نسل حضرت نوح عليه السلام كے تين بيٹوں: حضرت سام، حضرت حام اور حضرت يافث سے چلى تھى. چنانچه حضرت نوح عليه السلام كے بعد جو انبياء بھى آئے وه آپ هى كى نسل سے تھے. البته قرآن ميں صرف سامى رسولوں كا تذكره هے، آپ عليه السلام كے دوسرے دو بيٹوں كى نسلوں ميں مبعوث هونے والے پيغمبروں كا ذكر قرآن ميں نهيں آيا. حضرت ابراهيم عليه السلام خود بھى حضرت نوح عليه السلام هى كى نسل سے تھے، ليكن حضرت ابراهيم عليه السلام كى نسل ميں جو انبيا ورسل عليهم السلام آئے ان كا ذكر قرآن ميں تخصيص كے ساتھ آپ عليه السلام كى نسل يا ذريّت كے حوالے سے هوا هے. آج حضرت ابراهيم عليه السلام كو گزرے تقريبًا پانچ هزار برس هو چكے هيں، اس دوران آپ عليه السلام كى اولاد كهاں كهاں پهنچى اور كس كس علاقے ميں آباد هوئى، يه اپنى جگه تحقيق كا ايك مستقل موضوع هے، ليكن اس آيت سے يه ثابت هوتا هے كه آپ عليه السلام كى نسل جس جس علاقے ميں بھى آباد هوئى ان تمام علاقوں ميں انبيا آتے رهے.

فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ:  «تو ان (كى نسل) ميں كچھ تو هدايت يافته بھى هيں، ليكن ان كى اكثريت فاسقوں پر مشتمل هے».

UP
X
<>