April 25, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 28

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ

اے اِیمان والو ! اﷲ سے ڈرو، اور اُس کے پیغمبر پر اِیمان لاؤ، تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصے عطا فرمائے، اور تمہارے لئے وہ نور پیدا کرے جس کے ذریعے تم چل سکو، اور تمہاری بخشش فرمادے۔ اور اﷲ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے

آيت 28:  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ:  «اے لوگو جو ايمان لائے هو! الله كا تقوى اختيار كرو اور اس كے رسول (محمد صلى الله عليه وسلم) پر ايمان لاؤ!»

اس آيت كى تفسير دو طرح سے كى گئى هے: ايك تو يه كه يهاں « يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا» كا خطاب محمد رّسول الله صلى الله عليه وسلم پر ايمان لانے والوں سے هے. ان سے فرمايا جا رها هے كه تم محض زبان سے آپ صلى الله عليه وسلم كى نبوت كا اقرار كركے نه ره جاؤ بلكه صدق دل سے ايمان لاؤ اور اپنے ايمان كو پخته كرو. حضور صلى الله عليه وسلم پر سچے ايمان كا معيار آپ كے اُسوه حسنه كى پيروى هے. سورة الاحزاب ميں اهلِ ايمان سے فرمايا گيا: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) {آيت:21}. «تمهارے ليے الله كے رسول (صلى الله عليه وسلم) ميں ايك بهترين نمونه هے». تم لوگ الله كے رسول صلى الله عليه وسلم كے اُسوه كو ديكھو، آپ كى زندگى كے معمولات كو اپنے ليے مشعل راه بناؤ اور اپنى زندگيوں ميں ويسا توازن پيدا كرو جيسا كه آپ صلى الله عليه وسلم كى زندگى ميں توازن تھا. ديكھو! حضور صلى الله عليه وسلم نے تركِ دنيا كا طريقه نهيں اپنايا. آپ صلى الله عليه وسلم نے نكاح كيے، آپ صلى الله عليه وسلم كى اولاد بھى هوئى، آپ صلى الله عليه وسلم نے بھرپور زندگى گزارى، اس كے باوجود آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنى زندگى كى تمام توانائياں اور تمام صلاحيتيں غلبه دين كى جد وجهد كى نذر كر ديں. تم پر بھى لازم هے كه تم لوگ الله كے رسول صلى الله عليه وسلم كے اس اُسوه كى پيروى كرو.

حضور صلى الله عليه وسلم كے اُسوه كے حوالے سے يه اهم نكته بھى پيشِ نظر رهنا چاهيے كه جيسے آپ صلى الله عليه وسلم كا اتباع ضرورى هے، ويسے هى اس اتباع ميں توازن قائم ركھنا بھى ضرورى هے. اگر كسى نے حضور صلى الله عليه وسلم كى تمام سنتوں كو اپنا ليا ليكن اتباع كرتے هوئے هر سنت كى مطلوبه ترجيح اور اهميت كا خيال نه ركھا تو گويا وه شخص حضور كے اُسوه كى خلاف ورزى كا مرتكب هوا. اس نكتے كو اس مثال سے سمجھيں كه ايك طبيب نے آپ كو چند دوائيوں پر مشتمل ايك نسخه لكھ كر ديا، ان ميں سے ايك دوائى كا مطلوبه وزن ايك چھٹانك هے، دوسرى كا ايك توله اور تيسرى كا ايك ماشه. اب اگر آپ اپنى پسند سے توله والى دوائى كا وزن ايك چھٹانك كر ليں اور چھٹانك والى دوائى كا وزن ايك توله كر ليں تو وه نسخه نسخه شفا نهيں رهے گا، نسخه هلاكت بن جائے گا. اس ليے صرف يه اطمينان كافى نهيں كه فلاں عمل آپ صلى الله عليه وسلم كى سنت سے ثابت هے، بلكه سنت وسيرتِ نبوى كو اس اعتبار سے ديكھنا چاهيے كه حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنى زندگى مجموعى طور پر كس طرح گزارى، آپ صلى الله عليه وسلم كى زندگى ميں كس چيز كى كتنى اهميت تھى؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے كس عمل كو كتنا وقت ديا؟ آپ صلى الله عليه وسلم كى ترجيحات كيا تھيں؟ آپ صلى الله عليه وسلم كى ترجيحات ميں بنيادى نوعيت كى چيزيں كون سى تھيں اور كون سى چيزوں كو ثانوى حيثيت حاصل تھى؟ واضح رهے كه اگر كسى نے حضور صلى الله عليه وسلم كے اُسوه كا اتباع كرتے هوئے اس اعتبار سے توازن برقرار نه ركھا تو اس كا طرز عمل حضور صلى الله عليه وسلم كے اتباع كے بجائے ذاتى پسند وناپسند كا معامله بن جائے گا.

سياق وسباق كے اعتبار سے آيت زير مطالعه كے اس حصے كا ايك مفهوم اور بھى هے. پچھلى آيت ميں چونكه اهلِ كتاب كا ذكر هے، اس ليے اس حوالے سے اس خطاب كا رخ اهلِ كتاب كى طرف بھى هے. اس پهلو سے اس فقرے كو اس طرح سمجھنا چاهيے كه حضرت عيسى عليه السلام كے پيروكاروں ميں سے جن لوگوں كے اندر اپنے سابقه ايمان كى كچھ رمق موجود هے، ان سے كها جا رها هے كه اے وه لوگو جو پهلے سے الله پر ايمان ركھتے هو اب اُس الله كا تقوى اختيار كرتے هوئے اُس كے آخرى رسول پر بھى ايمان لے آؤ! اگر تم ايسا كرو گے تو:

يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ:  «وه تمهيں دهرا حصه عطا كرے گا اپنى رحمت سے»

اهلِ كتاب كے ايسے لوگوں كے ليے هم سورة القصص ميں بھى يه خوش خبرى پڑھ چكے هيں: (أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ) {آيت: 54} كه اگر يه لوگ نبى آخر الزمان صلى الله عليه وسلم پر ايمان لائيں گے تو انهيں دهرا اجر ملے گا.

وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ:  «اور وه تمهيں ايسا نور عطا فرمائے گا جس كو لے كر تم چل سكو گے»

اس سے ايك تو وه نور مراد هے جس كا ذكر قبل ازيں آيت: 12 ميں هو چكا هے كه پُل صراط سے گزرتے هوئے تمهيں نور عطا كيا جائے گا جس كى مدد سے تم آسانى سے جنّت ميں پهنچ جاؤ گے. ليكن اس كے علاوه اس سے مراد يهاں ايمان بالرسول اور اُسوه رسول كے اتباع كا وه نور بھى هے جو اهلِ ايمان كو دنيوى زندگى ميں بھى نصيب هوتا هے. اس نكتے كو سمجھنے كے ليے آيت كے الفاظ: آمِنُوْا بِرَسُوْلِهِ كو ذهن ميں دوباره تازه كر ليں اور سمجھ ليں كه يهاں اصل زور (emphasis) ايمان بالرسول صلى الله عليه وسلم پر هے. اس حوالے سے آيت كے اس حصے كا مفهوم يه هو گا كه اگر تم لوگ اُسوه رسول صلى الله عليه وسلم كو مضبوطى سے تھامے ركھو گے تو تمهيں عملى زندگى ميں ايك ايسى روشنى عطا هو گى جو تمهيں كبھى بھٹكنے نهيں دے گى. خاص طور پر تم رهبانيت جيسى بدعت ميں ملوث هونے سے محفوظ رهو گے. چونكه زير مطالعه آيات كا تعلق اقامتِ دين اور اقامتِ عدل وقسط كے مضمون سے هے، اس ليے سياقِ مضون كے اعتبار سے آيت كے اس حصے ميں يه مفهوم بھى پايا جاتا هے كه اگر تمهيں نظامِ عدل وقسط كے قيام كى منزل پر پهنچنے كے ليے راهنمائى اور روشنى دركار هے تو وه تمهيں ايمان بالرسول اور منهجِ انقلابِ نبوى سے ملے گى. اور اگر تم نے اپنا يه ايمان پخته كرليا اور منهجِ نبوى كو اپنا راسته بنا ليا تو اس راستے پر هم تمهيں ايسا نور عطا كريں گے جس كى راهنمائى ميں تمهارے ليے كسى غلطى، كوتاهى يا منزل سے بھٹكنے كا كوئى امكان نهيں رهے گا.--- چنانچه اگر هميں عدل وقسط كے قيام كے ليے انقلاب برپا كرنے كى جدوجهد كرنى هے (دعا كريں كه الله مجھے اور آپ كو اس جدوجهد ميں اپنا تن من دھن كھپا دينے كى توفيق عطا فرمائے!) تو هميں اس كے ليے روشنى اور راهنمائى انقلابِ نبوى كے منهج سے حاصل هو گى. هميں معلوم هونا چاهيے كه اگر هم حضور صلى الله عليه وسلم كے اس راستے هٹ كر كوئى راسته اختيار كريں گے تو كبھى منزل پر نهيں پهنچ پائيں گے:

خلافِ پيمبر كسے راه گزيد            كه هرگز به منزل  نخواهد رسيد

سورة المائدة ميں الله تعالى كا فرمان هے: (لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا) {آيت:48} كه هم نے تم ميں سے سب كے ليے عليحده عليحده شريعتيں اور عليحده عليحده منهاج بنائے هيں. اب يه همارى ذمه دارى هے كه هم اپنے نبى صلى الله عليه وسلم كا منهاج تلاش كريں اور جب تلاش كرنے ميں كامياب هو جائيں تو پھر هميں يقين كر لينا چاهيے كه «جا ايں جا ست!» (جس جگه كى هميں تلاش تھى وه جگه يهى هے). يعنى هميں راهنمائى چاهيے، هدايت چاهيے يا غلبه دين كى جدوجهد ميں كاميابى چاهيے تو يه سب كچھ هميں سيرتِ محمدى صلى الله عليه وسلم سے هى ملے گا. اس يقين كے بعد هميں اپنا تن من دھن سيرتِ محمدى صلى الله عليه وسلم كے اتباع ميں كھپا دينے پر كمربسته هو جانا چاهيے اور ايسا كرتے هوئے هميں زير زمين تيل تلاش كرنے والى كمپنى كى مثال پيش نظر ركھنى چاهيے. ايسى كسى كمپنى كے ماهرين كو اگر كسى جگه كے بارے ميں گمان هو كه يهاں سے تيل ملنے كا امكان هے تو وه صرف اس گمان اور امكان كى بنياد پر كروڑوں روپے اس جگه كى ڈرلنگ پر صرف كر ديتے هيں. ليكن همارا تو ايمان هے، هميں تو يقين هے كه «جا ايں جا ست!». تو پھر هم كيوں نه اپنا سب كچھ اس راه ميں نچھاور كر ديں!

وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ:  «اور وه تمهيں بخش دے گا، اور الله بهت بخشنے والا، بهت رحم كرنے والا هے».

اگر تم لوگوں نے منهاجِ نبوى صلى الله عليه وسلم كو اپنے ليے مشعلِ راه بنا ليا تو تمهارا رخ سيدھا هو گيا، مجموعى طور پر تم سيدھے راستے پر آگئے. اب اگر اس راستے پر چلتے هوئے كوئى خطا كوئى لغزش هو گى تو توبه كا دروازه كھلا هے:

(إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ) {النساء: 17}

«الله كے ذمے هے توبه قبول كرنا ايسے لوگوں كى جو كوئى برى حركت كر بيٹھتے هيں جهالت اور نادانى ميں پھر جلد هى توبه كر ليتے هيں، تو يهى هيں جن كى توبه الله قبول فرمائے گا».

چنانچه اگر تم سچے دل سے توبه كرتے رهو گے تو الله تعالى تمهارى خطائيں اور لغزشيں معاف فرماتا رهے گا. وه بهت بخشنے والا اور بهت رحم كرنے والا هے.

UP
X
<>