April 26, 2024

قرآن کریم > الـمجادلـة >sorah 58 ayat 8

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَيَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ ۡ وَاِذَا جَاءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ ۙوَيَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ ۭ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ ۚ يَصْلَوْنَهَا ۚ فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 

کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کر دیا گیا تھا، پھر بھی وہ وہی کام کرتے ہیں جس سے اُنہیں منع کیا گیا تھا؟ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسی سرگوشیاں کرتے ہیں جو گناہ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ اور (اے پیغمبر !) جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں ایسے طریقے سے سلام کرتے ہیں جس سے اﷲ نے تمہیں سلام نہیں کیا، اورا پنے دلوں میں کہتے ہیں کہ : ’’ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، اُس پر اﷲ ہمیں سزا کیوں نہیں دے دیتا؟‘‘۔ جہنم ہی ان (کی خبر لینے) کیلئے کافی ہے، وہ اسی میں جاپہنچیں گے، اور وہ پہنچنے کی بہت بُری جگہ ہے۔

آيت 8:  أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ:  «كيا تم نے ديكھا نهيں ان لوگوں كو جنهيں منع كيا گيا تھا نجوى سے، پھر وه اعاده كر رهے هيں اسى شے كا جس سے انهيں منع كيا گيا تھا»

يه مدينه كے منافقين كا ذكر هے جو يهوديوں كے ساتھ مل كر هر وقت مسلمانوں كے خلاف سازشوں كا جال بُننے كى كوششوں ميں مصروف رهتے تھے. يهاں الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى كے الفاظ ميں سورة النساء كى آيت: 114 كے اس حكم كى طرف اشاره هے: (لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوَاهُمْ) كه ان لوگوں كى اكثر سرگوشيوں ميں خير كى كوئى بات نهيں هوتى. آيت زير مطالعه ميں سورة النساء كى آيت كے حوالے سے يه بھى ثابت هوتا هے كه سورة المجادله، سورة النساء كے بعد نازل هوئى.

وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ:  «اور وه سرگوشياں كرتے هيں گناه، زيادتى اور رسول كى نافرمانى سے متعلق».

قبل ازيں سورة النساء كے مطالعے كے دوران بھى ذكر هو چكا هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كى ذاتى اطاعت كا حكم منافقين كو بهت برا لگتا تھا. اس حوالے سے ان كا موقف يه تھا كه هم الله كى اطاعت بھى كرتے هيں، الله كى كتاب كے تمام احكام بھى تسليم كرنے كو تيار هيں، ليكن اپنے جيسے ايك انسان كى تمام باتوں كو من وعن تسليم كرنے كو هم ضرورى نهيں سمجھتے. اسى سوچ اور اسى مؤقف كے تحت وه لوگ حضور صلى الله عليه وسلم كے فيصلوں پر گاهے بگاهے اعتراضات بھى كرتے رهتے تھے. ان كے ايسے هى ايك اعتراض كا ذكر سورة محمد كى آيت: 20 ميں بھى آيا هے كه جب الله تعالى كى طرف سے قتال كا كوئى حكم نازل نهيں هوا تو قريش كے ساتھ خواه مخواه چھيڑ چھاڑ شروع كر كے حالات كيوں خراب كيے جا رهے هيں؟

وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ:  «اور جب وه آپ كے پاس آتے هيں تو آپ كو اس (كلمه) سے دعا ديتے هيں جس سے الله نے آپ كو دعا نهيں دى».

«تَحِيَّة» كے لغوى معنى كسى كو زندگى كى دعا دينے كے هيں. عربوں كے هاں رواج تھا كه وه ايك دوسرے سے ملتے وقت «حَيَّاكَ اللهُ» كے جملے كا تبادله كرتے تھے. اس كا مطلب هے: الله تمهيں اچھى زندگى دے، يا الله تعالى تمهارى زندگى دراز كرے. عرفِ عام ميں اس دعا كو «تحيه» كها جاتا تھا. اسلام نے دو مسلمانوں كى ملاقات كے موقع كے ليے دعائيه كلمه (greetings) كے طور پر السَّلَامُ علَيْكُم كے الفاظ كا انتخاب كيا، ليكن تحيه كا لفظ عربوں كے هاں چونكه بهت معروف تھا اس ليے «السَّلَامُ علَيْكُم» كو بھى اصطلاحا تحيه كها جانے لگا. سورة النساء كى آيت: 86 ميں يه لفظ «السَّلَامُ علَيْكُم» هى كے مفهوم ميں آيا هے. آيت زير مطالعه ميں منافقين كى اس شرارت كا ذكر هے جو وه اس كلمه تحيه كے حوالے سے كرتے تھے. جب حضور صلى الله عليه وسلم كے پاس حاضر هوتے تو السَّلَامُ علَيْكُم كهنے كے بجائے «السَّامُ علَيْكُم» كهتے. «سام» كے معنى موت كے هيں اور اس طرح اپنى طرف سے وه لوگ حضور صلى الله عليه وسلم اور آپ كى محفل ميں موجود مسلمانوں كے ليے اس دعائيه كلمه كو (معاذ الله!) بد دعا ميں بدل ديتے تھے.

وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ:  «اور اپنے دل ميں كهتے هيں كه الله هميں عذاب كيوں نهيں ديتا همارے اس طرح كهنے پر؟»

ايسى حركت كرنے كے بعد وه سوچتے كه اگر محمد (صلى الله عليه وسلم) الله كے رسول هوتے تو الله ان كى يه توهين كبھى برداشت نه كرتا اور اس گستاخى پر وه فورًا همارى زبانيں كھينچ ليتا. چنانچه همارے بار بار كهنے پر بھى اگر هميں كچھ نهيں هوتا تو اس كا مطلب يهى هے كه يه الله كے رسول نهيں هيں. يه مرضِ منافقت كى وه سٹيج هے جس كا ذكر سورة الحديد كى آيت: 14 ميں آ چكا هے. اس سٹيج ميں منافق شخص كے بچے كھچے ايمان ميں شكوك وشبهات كے كانٹے چبھنے لگتے هيں اور اس كے نتيجے ميں ايمان كى تھوڑى بهت پونجى بھى برف كى طرح پگھلنے اور ضائع هونے لگتى هے.

حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ:  «ان كے ليے تو اب جهنم هى كافى هے، يه اس ميں داخل هوں گے، پس وه بهت برا ٹھكانه هے».

UP
X
<>