April 25, 2024

قرآن کریم > الـحـشـر >sorah 59 ayat 19

وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 

اور تم اُن جیسے نہ ہوجانا جو اﷲ کو بھول بیٹھے تھے، تو اﷲ نے اُنہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ وہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں

آيت 19:  وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ:  «اور (اے مسلمانو ديكھنا!) تم ان لوگوں كى طرح نه هو جانا جنهوں نے الله كو بھلا ديا تو الله نے انهيں اپنے آپ سے غافل كر ديا».

أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ:  «يهى لوگ هيں جو فاسق هيں».

همارے ليے اس آيت كى اهميت كا ايك پهلو يه بھى هے كه علامه اقبال كے بيان كے مطابق انهوں نے اپنا فلسفه خودى اسى آيت سے اخذ كيا تھا. علامه كے اس بيان كے راوى سيد نذير نيازى هيں. انهوں نے اپنے ايك مضمون ميں اس حوالے سے ايك واقعه نقل كيا هے، (يه واقعه انهوں نے همارے هاں قرآن كانفرنس ميں اپنے ايك ليكچر ميں بھى بيان كيا تھا). وه لكھتے هيں كه ايك مرتبه انهوں نے علامه اقبال سے ان كے فلسفه خودى كے ماخذ كے بارے ميں سوال كرتے هوئے كها كه آپ كے فلسفه خودى كے ماخذ كے بارے ميں بهت چه ميگوئياں هوتى هيں، كوئى دعوى كرتا هے كه آپ نے يه فلسفه نطشے سے ليا هے، كوئى اس حوالے سے كسى دوسرے مغربى فلاسفر كا نام ليتا هے. بهتر هو گا آپ خود واضح فرما ديں كه آپ كے اس فلسفه كا ماخذ كيا هے؟ يه سن كر علامه اقبال نے انهيں فرمايا كه آپ كل فلاں وقت ميرے پاس آئيں، ميں آپ كو اس كے ماخذ كے بارے ميں بتاؤں گا. اس پر وه بهت خوش هوئے كه شاعر مشرق اور حكيم الامت انهيں يه اعزاز بخش رهے هيں كه انهيں اس موضوع پر تفصيلى ڈكٹيشن ديں گے. ليكن اگلے دن جب وه كاپى پنسل هاتھ ميں ليے مقرره وقت پر حاضر خدمت هوئے تو علامه نے انهيں ديكھتے هى كها كه ذرا قرآن مجيد اُٹھا لاؤ. پھر انهوں نے كها كه سورة الحشر كى يه آيت (آيت: 19) نكال كر تلاوت كرو! اور انهيں مخاطب هو كر كها كه يه هے ميرے فلسفه خودى كا ماخذ!

اب آئيے فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ كے مفهوم پر غور كريں. كيا كوئى شخص اپنے آپ كو اس طرح بھول سكتا هے كه وه خود اپنى شخصيت سے هى واقف نه رهے؟ كيا كوئى انسان ايسا بھى هو سكتا هے جسے اپنے پيٹ كا خيال نه رهے؟ يا جسے اپنى كوئى بيمارى ياد نه رهے؟ ظاهر هے كوئى انسان اپنے جسم اور اس كے تقاضوں سے غافل نهيں هو سكتا. تو معلوم هوا كه حيوانى جسم كے علاوه انسان كى كوئى اور حيثيت بھى هے جسے وه بھول جاتا هے، اور وه هے انسان كى اصل حقيقت يعنى اس كى «روح». جهاں تك انسان كے الله كو بھلانے كا تعلق هے اس كا ذكر سورة المجادلة كى آيت: 19 ميں بھى آيا هے:  ﴿اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ﴾ «شيطان نے ان پر قابو پا ليا هے، پس انهيں الله كى ياد سے غافل كر ديا هے». اب آيت زير مطالعه ميں ايسے لوگوں كى اس سزا كا ذكر هے جو انهيں دنيوى زندگى ميں هى مل جاتى هے. يعنى جو لوگ شيطان كے بهكاوے ميں آكر الله كو بھول جاتے هيں، الله تعالى انهيں ان كى اصل حقيقت سے غافل كر ديتا هے. پھر ان لوگوں كو يه بھى ياد نهيں رهتا كه وه انسان هيں، اشرف المخلوقات هيں يا الله كے بندے هيں. انهيں بس يهى ياد ره جاتا هے كه بهت سے حيوانات كى طرح وه بھى ايك حيوان هيں.

آج همارى جديد تهذيب بھى مختلف انداز سے هميں يهى سبق پڑھانے كى كوشش ميں هے كه انسان محض ايك حيوان هے. اس فلسفے كو متعارف كرانے اور پروان چڑھانے ميں بنيادى كردار ڈار وِن كے نظريه ارتقاء (evolution theory) نے ادا كيا هے. اس تھيورى كا خلاصه يه هے كه ايك حيوان اور انسان ميں بنيادى فرق صرف ارتقاء كے مراحل اور مدارج كا هے، جيسے گدھے اور گھوڑے ميں صرف يه فرق هے كه گدھا نچلے درجے كا (rough & coarse) جانور هے، جبكه گھوڑا ارتقاء كا ايك مزيد مرحله طے كر كے نسبتًا بهتر درجے ميں چلا گيا هے اور ايك refined اور تمكنت والا جانور هے، اسى طرح كا فرق ايك گوريلے (chimpanzee) اور انسان ميں هے. يعنى گوريلے كے مقابلے ميں انسان نسبتًا بهتر قسم كا جانور هے، باقى ان دونوں كے جبلى تقاضے (instinets) اور محركات (motives) ميں كوئى فرق نهيں هے ----- جديد سائيكالوجى بھى انهى خطوط پر چل رهى هے. چنانچه آج كے سائيكالوجسٹ كو بھى محركاتِ عمل كے حوالے سے انسان اور حيوان ميں كوئى فرق نظر نهيں آتا. تو جب يه فرق مٹ گيا اور انسان اپنى اصليت كو بھلا كر حيوان بن گيا تو گويا وه هر قسم كى اخلاقى پابنديوں سے بھى آزاد هو گيا. انيسويں صدى كے فرنچ لٹريچر ميں بنيادى طور پر اسى نكتے كو فوكس كيا گيا هے كه حيوانات كى زندگى فطرت كے عين مطابق هے، اس ليے هم انسانوں كو ان سے سبق ليتے هوئے اپنى زندگى كو خواه مخواه كے تكلفات سے آزاد كر لينا چاهيے. مثلًا تمام حيوانات لباس سے بے نياز هيں، اس كا مطلب هے كه لباس فطرت كا تقاضا نهيں هے، انسان كى اپنى ايجاد هے. اسى طرح بيوى، بيٹى اور ماں كى تمييز بھى حيوانات ميں نهيں پائى جاتى، يه پابندى بھى انسان نے اپنے اوپر خود هى عائد كى هے. يه هے آج كے انسان كا الميه!

بهرحال يه آيت هميں اس حقيقت سے آگاه كرتى هے كه جو انسان الله كو بھلا ديتا هے الله تعالى اسے اُس كى حقيقت سے غافل كر ديتا هے. انسان كى روح خود الله تعالى نے اس كے اندر پھونكى هے اور اسى وجه سے وه «انسان» كے مرتبه پر فائز هوا هے. چنانچه جب كوئى انسان اپنى روح اور اس كے تقاضوں سے غافل هو جاتا هے تو وه انسان كے درجے سے گر كر حيوان بن جاتا هے. اس حوالے سے اپنشد كا يه جمله بهت اهم هے:

man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self.

اسى real self كا دوسرا نام «انا» هے، ليكن اس سے اصل مراد انسان كى روح هى هے، جسے علامه اقبال نے فلسفيانه انداز ميں «خودى» كا نام ديا هے:

نقطه نورى كه نام او خودى ست      زير خاكِ ما شرارِ زندگى ست

هے ذوقِ تجلى بھى اسى خاك ميں پنهاں      غافل تو نرا صاحبِ ادراك نهيں!

اس سارى بحث كا خلاصه يه هے كه انسان حيوانى جسم اور روح كا مركب هے. بقول شيخ سعدى:

آدمى زاده طرفه معجون است          از فرشته سرشته و زحيوان

يعنى آدمى ايك ايسى معجون مركب هے جس ميں فرشته اور حيوان دونوں گُندھے هوئے هيں. فرشتے سے مراد يهاں وه نورانى روح هے جو عالمِ امر كى چيز هے:  ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ {بنى اسرائيل: 85}  «اور (اے نبى صلى الله عليه وسلم!) يه لوگ آپ سے پوچھتے هيں روح كے بارے ميں. آپ فرما ديجيے كه روح ميرے رب كے امر ميں سے هے اور تمهيں نهيں ديا گيا علم مگر تھوڑا سا». چنانچه انسان كى روح نورانى چيز هے اور اس كا تعلق الله تعالى سے هے. اگر انسان الله كو بھلا دے گا تو اپنى روح يعنى اپنى اصليت سے بيگانه هو كر محض ايك حيوان بن كر ره جائے گا. اس كے بعد اس كى نظر ميں اچھے برے اور حلال وحرام كى كوئى تميز نهيں رهے گى. انسانى معاشرے كے ايسے هى افراد آيت زير مطالعه كے حكم: ﴿أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ كے مصداق هيں.

UP
X
<>