April 24, 2024

قرآن کریم > الـحـشـر >sorah 59 ayat 2

هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ

وہی ہے جس نے اہلِ کتاب میں سے کافر لوگوں کو اُن کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔ (مسلمانو !) تمہیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اُن کے قلعے اﷲ سے بچالیں گے۔ پھر اﷲ اُن کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں اُن کا گمان بھی نہیں تھا، اور اﷲ نے اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی اُجاڑ رہے تھے۔ لہٰذا اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو

آيت 2:  هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ:  «وهى هے جس نے نكال باهر كيا ان كافروں كو جو اهلِ كتاب ميں سے تھے ان كے گھروں سے، پهلے جمع هونے كے وقت».

يه يهودى قبيله بنو نضير كى مدينه منوره سے جلا وطنى كے واقعه كا ذكر هے. اس واقعه كا پس منطر يوں هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كے هجرت كے وقت مدينه (يثرب) ميں تين يهودى قبائل: بنو قينقاع، بنو نضير اور بنو قريظه آباد تھے. حضور صلى الله عليه وسلم نے مدينه تشريف لانے كے فورًا بعد ان قبائل كے ساتھ ايك معاهده كيا جو تاريخ ميں «ميثاقِ مدينه» كے نام سے مشهور هے. اپنى نوعيت كے اعتبار سے بنيادى طور پر يه مدينه كے «مشتركه دفاع» كا معاهده تھا.  ان ميں سے قبيله بنو قينقاع نے تو معاهدے كے كچھ هى دير بعد مسلمانوں كے خلاف سازشيں شروع كر ديں. چنانچه معاهدے كى مسلسل خلاف ورزيوں كى بنا پر حضور صلى الله عليه وسلم نے غزوه بدر كے بعد اس قبيله كو مدينه بدر كر ديا. غزوه اُحد (3 هجرى) كے بعد قبيله بنو نضير نے بھى مسلمانوں كے خلاف سازشيں شروع كر ديں. غزوه اُحد ميں مسلمانوں كى وقتى شكست سے ان كى كمزورى كا تأثر لے كر جهاں عرب كے بهت سے دوسرے قبائل نے سر اُٹھانا شروع كيا، وهاں يه قبيله بھى اپنے عهد كى خلاف ورزى كرتے هوئے مسلمانوں كے خلاف مهم جوئى ميں شامل هو گيا. ان كے سردار كعب بن اشرف نے قريشِ مكه سے گٹھ جوڑ كر كے انهيں مدينه پر حمله كرنے كى باقاعده دعوت دى اور انهيں يقين دلايا كه تم لوگ باهر سے حمله كرو، هم اندر سے تمهارى مدد كريں گے. اسى دوران كعب بن اشرف نے حضور صلى الله عليه وسلم كو (نعوذ بالله) شهيد كرنے كى ايك سازش بھى تيار كى. اس كے ليے ان لوگوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كو كسى اهم بات چيت كے بهانے اپنے هاں بلايا. منصوبه يه تھا كه كسى ديوار كے بالكل ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم كى نشست كا انتظام كيا جائے اور جب آپ وهاں بيٹھے هوں تو ديوار كے اوپر سے چكى كا بھارى پاٹ آپ صلى الله عليه وسلم پر گرا ديا جائے. آپ صلى الله عليه وسلم ان كے بلانے پر ان كے محلے ميں تشريف لے گئے مگر الله تعالى نے جب وحى كے ذريعے آپ صلى الله عليه وسلم كو ان كى اس گھناؤنى سازش سے آگاه كيا تو آپ صلى الله عليه وسلم واپس تشريف لے آئے.

بنو نضير كى ان ريشه دوانيوں اور مسلسل بد عهدى كى وجه سے بالآخر ربيع الاول 4 هجرى ميں حضور صلى الله عليه وسلم نے ان كے خلاف لشكر كشى كا حكم دے ديا. البته جب مسلمانوں نے ان كى گڑھيوں كا محاصره كيا تو انهوں نے چند دن محصور رهنے كے بعد بغير لڑے هتھيار ڈال ديے. اس پر حضور صلى الله عليه وسلم نے ان كى جان بخشى كرتے هوئے انهيں مدينه سے نكل جانے كا حكم ديا، بلكه آپ صلى الله عليه وسلم نے مزيد نرمى كرتے هوئے انهيں يه اجازت بھى دے دى كه جاتے هوئے وه جس قدر سامان اونٹوں پر لاد كر لے جا سكتے هيں، لے جائيں. غزوه احزاب (5 هجرى) كے بعد بنو قريظه كو بھى ان كى عهد شكنى اور سازشوں كى وجه سے كيفر كردار تك پهنچا ديا گيا. اس طرح يهودِ مدينه كے تينوں قبائل ميثاقِ مدينه كى خلاف ورزى كے باعث ايك ايك كر كے اپنے انجام كو پهنچ گئے.

آيت ميں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ كا ايك مفهوم تو يه سمجھ ميں آتا هے كه مسلمانوں نے پهلى مرتبه هى جب ان پر لشكر كشى كى تو انهوں نے هتھيار ڈال ديے. اس كے علاوه اس كا يه مطلب بھى هو سكتا هے كه مدينه سے جلا وطنى تو ان لوگوں كا پهلا حشر هے، پھر ايك وقت آئے گا جب انهيں خيبر سے بھى نكال ديا جائے گا اور اس كے بعد انهيں جزيره نمائے عرب كو بھى خيرباد كهنا پڑے گا (چنانچه حضرت عمر رضى الله عنه كے دور ميں تمام عيسائيوں اور يهوديوں كو جزيره نمائے عرب سے نكال ديا گيا) اور پھر ايك حشر وه هو گا جو قيامت كے دن برپا هو گا.

مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا:  «(اے مسلمانو!) تمهيں يه گمان نهيں تھا كه وه (اتنى آسانى سے) نكل جائيں گے»

وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ:  «اور وه بھى سمجھتے تھے كه ان كے قلعے انهيں الله (كى پكڑ) سے بچا ليں گے»

فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا:  «تو الله نے ان پر حمله كيا وهاں سے جهاں سے انهيں گمان بھى نه تھا».

وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ:  «اور ان كے دلوں ميں اس نے رعب ڈال ديا»

الله تعالى اپنے دشمنوں كو جس طريقے سے چاهے هزيمت سے دو چار كر دے. اس موقع پر الله تعالى نے انهيں اس قدر مرعوب كر ديا كه وه اپنے مضبوط قلعوں كے اندر بھى خود كو غير محفوظ سمجھنے لگے اور اپنے تمام تر وسائل كے باوجود بھى مسلمانوں سے مقابله كرنے كى همت نه كر سكے.

يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ:  «وه برباد كر رهے تھے اپنے گھروں كو، خود اپنے هاتھوں سے بھى اور اهلِ ايمان كے هاتھوں سے بھى».

چونكه انهيں يه اجازت مل چكى تھى كه اپنے سامان ميں سے جو كچھ وه اپنے ساتھ اونٹوں پر لاد كر لے جا سكتے هيں لے جائيں، اس ليے وه اپنے گھروں كى ديواروں اور چھتوں ميں سے دروازے، كھڑكھياں، كڑياں، شهتير وغيره نكالنے كے ليے خود هى انهيں مسمار كر رهے تھے. ان كى اس تخريب ميں مسلمانوں نے بھى ان كا هاتھ بٹايا هو گا.

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ:  «پس عبرت حاصل كرو اے آنكھيں ركھنے والو!»

يه گويا پيچھے ره جانے والے قبيلے بنى قريظه كو سنايا جا رها هے كه تم اپنے بھائى بندوں كے اس انجام سے عبرت حاصل كرو اور سازشوں سے باز آ جاؤ!

UP
X
<>