April 20, 2024

قرآن کریم > الـحـشـر >sorah 59 ayat 21

لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ

اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارا ہوتا تو تم اُسے دیکھتے کہ وہ اﷲ کے رُعب سے جھکا جارہاہے، اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں

آيت 21:  لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ:  «اگر هم اس قرآن كو اتار ديتے كسى پهاڑ پر تو تم ديكھتے كه وه دب جاتا اور پھٹ جاتا الله كے خوف سے».

يه قرآن مجيد كى عظمت كا بيان هے. اس موضوع كے حوالے سے يهاں يه اهم نكته بھى سمجھ ليجيے كه قرآن مجيد كى عظمت اور قرآن مجيد كى افاديت دو الگ الگ موضوعات هيں. ان دو موضوعات كو آپس ميں گڈ مڈ نهيں كرنا چاهيے. جهاں تك قرآن مجيد كى افاديت كا تعلق هے، قرآن كى متعدد آيات اس حوالے سے همارى راه نمائى كرتى هيں، ليكن سوره يونس كى يه دو آيات اس لحاظ سے خصوصى اهميت كى حامل هيں:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ  قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ آيت: 57، 58.

«اے لوگو! آگئى هے تمهارے پاس نصيحت تمهارے رب كى طرف سے اور تمهارے سينوں (كے امراض) كى شفا اور اهلِ ايمان كے ليے هدايت اور (بهت بڑى) رحمت. (اے نبى صلى الله عليه وسلم! ان سے) كهه ديجيے كه يه (قرآن) الله كے فضل اور اس كى رحمت سے (نازل هوا) هے، تو چاهيے كه لوگ اس پر خوشياں منائيں! وه كهيں بهتر هے ان چيزوں سے جو وه جمع كرتے هيں».

يه تو قرآن مجيد كى افاديت كا ذكر هے، ليكن قرآن مجيد فى نفسه كيا هے؟ انسان كا محدود ذهن اس موضوع كو كما حقه سمجھنے سے قاصر هے. چنانچه قرآن مجيد كى عظمت كے تصور كو انسانى ذهن كے ليے كسى حد تك قابلِ فهم بنانے كے ليے آيت زير مطالعه ميں ايك تمثيل بيان كى گئى هے. اس تمثيل كو سمجھنے كے ليے حضرت موسى عليه السلام كے ساتھ كوهِ طور پر پيش آنے والے واقعه كى ياد دهانى ضرورى هے. يه واقعه سورة الاعراف كى آيت: 143 ميں بيان هوا هے. حضرت موسى عليه السلام جب چاليس راتوں كے ليے كوهِ طور پر گئے تو آپ نے الله تعالى سے عرض كى:  ﴿رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ﴾ كه اے ميرے رب! مجھے اپنا جلوه دكھا، ميں تجھے ديكھنا چاهتا هوں. ﴿قَالَ لَنْ تَرَانِي﴾  الله تعالى نے جواب ميں فرمايا كه تم مجھے نهيں ديكھ سكتے.  ﴿وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ﴾ البته تم اس پهاڑ كو ديكھو، ميں اپنى تجلّى اس پر ڈالوں گا. ﴿فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي﴾ تو اگر يه پهاڑ اپنى جگه قائم ره سكا تو پھر تم بھى مجھے ديكھ سكو گے. ﴿فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ﴾ پھر جب اس كے رب نے پهاڑ پر ايك تجلى ڈالى، يعنى نور كا پرتو جب پهاڑ پر پڑا تو ﴿جَعَلَهُ دَكًّا﴾ اُس نے اس پهاڑ كو ريزه ريزه كر كے ركھ ديا. (وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا) {الاعراف: 143} اور حضرت موسى عليه السلام اس بالواسطه تجلى كے مشاهدے كى تاب نه لاتے هوئے بے هوش هو كر گر پڑے. اس واقعه كے ساتھ آيت زير مطالعه ميں بيان كى گئى تمثيل كى گهرى مماثلت هے. دونوں ميں فرق صرف يه هے كه كوهِ طور پر «تجلى ذات» كا معامله تھا اور يهاں اس تمثيل ميں «تجلى صفات» كا ذكر هے. قرآن مجيد الله تعالى كا كلام هے اور كلام اپنے متكلم كى صفت هوتا هے. اس ليے جو تاثير ذاتِ بارى تعالى كى تجلى كى هے عين وهى تاثير كلام الله كى تجلى كى هے. علامه اقبال اپنے انداز ميں قرآن مجيد كى عظمت كا بيان يوں كرتے هيں:

فاش گويم آنچه در دل مضمر است   ايں كتابے نيست چيزے ديگر است!

كه اگر ميں اپنے دل كى بات كروں تو يه كهوں گا كه قرآن مجيد محض ايك كتاب نهيں هے بلكه كوئى اور هى چيز هے. كيا چيز هے؟ اس كى مزيد وضاحت علامه يوں كرتے هيں:

مثلِ حق پنهاں وهم پيدا ست ايں       زنده وپائنده وگويا ست ايں!

يعنى يه الله تعالى هى كى صفات كا حامل هے اور اس حيثيت ميں يه پوشيده بھى هے اور عياں بھى. هميشه زنده رهنے والا بھى اور گويا (بولتا هوا) بھى. قرآن حكيم كى عظمت كے حوالے سے سورة الواقعه كى آيت: ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ كى تشريح كے تحت يه نكته بھى زير بحث آ چكا هے كه قرآن مجيد كى حقيقى معرفت، اصل هدايت اور روحِ باطنى تك رسائى كے ليے انسان كے باطن كا پاك هونا ضرورى هے. اگر كوئى شخص اپنے باطن كا تجزيه كيے بغير قرآن كو سمجھنے كى كوشش كرے گا تو وه صرف اس كى عبارت اور لغت كے ظاهرى مطالب ومعانى تك هى رسائى حاصل كر پائے گا. يهى بات مولانا رومى نے تعلى آميز الفاظ ميں يوں بيان كيا هے:

ما زِقرآں مغزها برداشتيم      استخواں پيشِ سگاں انداختيم!

كه هم نے قرآن سے اس كا مغز لے ليا هے اور هڈياں كتوں كے آگے ڈال دى هيں.

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ:  «اور يه مثاليں هيں جو هم لوگوں كے ليے بيان كرتے هيں تاكه وه غور كريں».

اب وه تين عظيم آيات آ رهى هيں جن كا ذكر اس ركوع كے آغاز ميں اسمائے حسنى كے حوالے سے هوا تھا. واضح رهے كه صفاتِ بارى تعالى كے موضوع پر سورة الحديد كى پهلى چھ آيات قرآن مجيد كے ذروه سنام كا درجه ركھتى هيں. (عربى ميں اونٹ كى كوهان كو سنام اور كسى چيز كى چوٹى يا بلند ترين حصے كو ذُروه/ ذِروه كهتے هيں. چنانچه ذروه سنام كا مطلب هے: كوهان كى بھى چوٹى. يعنى سب سے اونچا مقام يا كسى چيز كا نماياں ترين حصه!) جبكه اسمائے حسنى كے ذكر كے اعتبار سے سورة الحشر كى آخرى تين آيات پورے قرآن ميں منفرد وممتاز مقام كى حامل هيں. الله تعالى كے اسماء وصفات كے حوالے سے يهاں «ايمانِ مجمل» كے يه الفاظ بھى اپنے حافظے ميں تازه كر ليں: آمَنْتُ بِاللهِ كَمَا هُوَ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ أَحْكَامِهِ يعنى هم الله تعالى كے تمام اسماء وصفات كے ساتھ اس پر ايمان ركھتے هيں اور اس كے تمام احكام كے سامنے سرِ تسليم خم كرتے هيں.

UP
X
<>