March 29, 2024

قرآن کریم > الـحـشـر >sorah 59 ayat 7

مَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاء مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ 

اﷲ اپنے رسول کو دُوسری بستیوں سے جو مال بھی فییٔ کے طور پر دلوادے، تو وہ اﷲ کا حق ہے، اور اُس کے رسول کا، اور قرابت داروں کا، اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا، تاکہ وہ مال صرف اُنہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہ جائے جو تم میں دولت مند لوگ ہیں ۔ اور رسول تمہیں جوکچھ دیں ، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں ، اُس سے رُک جاؤ۔ اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ سخت سزا دینے والا ہے

آيت 7:  مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى:  «جو مال بھى هاتھ لگا دے الله اپنے رسول كے بستيوں والوں سے»

فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ:  «تو وه هے الله كے ليے، رسول كے ليے، قرابت داروں، يتيموں، مسكينوں اور مسافروں كے ليے»

واضح رهے كه الله اور رسول صلى الله عليه وسلم سے مراد يهاں اسلامى رياست هے. پھر چونكه رسول الله صلى الله عليه وسلم كا اپنا ذاتى ذريعه معاش تو كوئى تھا نهيں، اس ليے يه مال آپ كے ذاتى اخراجات، مثلًا ازواج مطهرات رضى الله عنهن كے نان نفقه اور دوسرى معاشرتى ذمه داريوں كى ادائيگى كے ليے بھى تھا. اس كے علاوه اس ميں حضور صلى الله عليه وسلم كے قرابت داروں كى مد بھى ركھى گئى تاكه آپ صلى الله عليه وسلم اپنے قرابت داروں كے ساتھ حسنِ سلوك كے تقاضے پورے كر سكيں. اسى طرح اس مال ميں ان تمام اقسام كے ناداروں اور محتاجوں كا بھى حق ركھا گيا جن كا ذكر اس آيت ميں آيا هے.

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ:  «تاكه وه تم ميں سے مال داروں هى كے درميان گردش ميں نه رهے».

الله تعالى چاهتا هے كه معاشرے ميں دولت كى تقسيم منصفانه هو اور اس كى گردش كے ثمرات معاشرے كے تمام طبقات تك پهنچيں. يه اسلامى معيشت كا بهت اهم اور بنيادى اصول هے. اسى اصول كے تحت الله تعالى نے مالِ فے زياده تر ناداروں اور محتاجوں كى محروميوں كے ازالے كے ليے مختص فرما ديا. مالِ فے بھى اگر مالِ غنيمت كى طرح تقسيم كيا جاتا تو يهاں بھى سواروں كو دهرا حصه ملتا اور  ظاهر هے جس شخص كے پاس گھوڑا يا اونٹ هے وه تو پهلے هى سے كچھ خوش حال هے، تو اس تقسيم سے مالِ فے كا بھى زياده تر حصه خوشحال لوگوں كو هى ملتا.

واضح رهے كه اسلام كے نظامِ عدل وقسط ميں تمام انسانوں كو معاشى طور پر برابر كرنے كا تصور نهيں پايا جاتا. ايسا هونا عملى طور پر ممكن بھى نهيں. ظاهر هے ايك سپاهى اور سپه سالار كسى طرح بھى برابر نهيں هو سكتے. يهى وجه هے كه كميونزم اپنے تمام تر دعوؤں اور انقلابى نعروں كے باوجود ايسى «معاشى مساوات» كى كوئى هلكى سى جھلك بھى دنيا كو نهيں دكھا سكا. اس كے برعكس اسلام كا نظامِ معيشت معاشرے سے معاشى ناهمواريوں كو ختم كرنے اور امير وغريب كے درميان فرق وتفاوت كو كم سے كم كرنے پر زور ديتا هے. اس كے ليے اسلام هر وه دروازه بند كر دينے كا حكم ديتا هے جس كى وجه سے چند هاتھوں ميں ارتكازِ دولت كا خدشه هو اور هر وه راسته كھولنے كى حوصله افزائى كرتا هے جس سے گردشِ دولت كا رُخ اُمرا سے غربا كى طرف پھرنے اور معاشى محروميوں كے ازالے كا امكان هو.

آج معاشى پيچيدگيوں كى وجه سے جديد معاشرے ميں جو گمبھير صورت حال جنم لے رهى هے اس كا ادراك سب سے پهلے جس عالمِ دين كو هوا وه شاه ولى الله دهلوى رحمة الله عليه تھے. شاه ولى الله رحمه الله ايسى صورت حال كے بارے ميں فرماتے هيں كه جس ملك يا معاشرے ميں تقسيمِ دولت كا نظام غير منصفانه هو گا وهاں كچھ لوگ دولت كے انبار جمع كر كے مسرفانه عياشيوں اور بدمعاشيوں ميں مبتلا هو جائيں گے، جبكه محروم طبقه كے لوگ باربردارى كے جانور بن كر ره جائيں گے. ايسى هى صورت حال كے بارے ميں حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے: ((كَادَ الْفَقْرُ اَنْ يَّكُوْنَ كُفْرًا)) كه محرومى اور احتياج انسان كو كفر تك پهنچا ديتى هے. گويا تقسيم دولت كا غير منصفانه نظام ايسى دو دھارى تلوار هے جس كى دو طرفه كاٹ سے مذكوره دونوں طبقوں كے افراد مذهبى وانسانى اقدار سے بيگانه وبے نياز هو كر عملى طور پر معاشرے كے ليے ناسور بن جاتے هيں. اُمرا كو تو اپنے اللّوں تللّوں سے هى فرصت نهيں ملتى جبكه غريب ونادار عوام دنيا وما فيها سے بے خبر صبح سے شام تك كمر توڑ مشقت ميں مصروف رهتے هيں. اس صورت حال سے فائده اٹھاتے هوئے شيطان اپنے ايجنڈے كى تكميل كے ليے آگے بڑھتا هے اور محروم طبقے كے افراد كے دلوں ميں ظالم استحصالى طبقے كے خلاف بغض وعداوت كى آگ سلگانا شروع كر ديتا هے: (إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ) {المائدة: 91} «شيطان تو يه چاهتا هے كه تمهارے درميان دشمنى اور بغض پيدا كر دے». تصور كريں اگر ايك سيٹھ صاحب كى بيٹى كى شادى كے موقع پر كروڑوں روپے كا اصراف صرف بے جا نمود ونمائش كى مد ميں هو رها هو گا تو يه سب كچھ ديكھ كر اس كے اس غريب ملازم كے دل ميں نفرت وعداوت كے كيسے كيسے جذبات پيدا هوں گے جس كى بيٹى گھر ميں بيٹھى صرف اس ليے بوڑھى هو رهى هے كه وه اس كے هاتھ پيلے كرنے كى استطاعت نهيں ركھتا. پھر همارے معاشرے ميں جب ايك كروڑ پتى كى بيٹى لاكھوں كا جهيز لے كر دوسرے كروڑ پتى كى بهو بن جاتى هے تو دولت مال داروں هى كے مابين گردش ميں رهتى هے.

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا:  «اور جو كچھ رسول تم لوگوں كو دے ديں وه لے لو اور جس چيز سے روك ديں اس سے رك جاؤ».

ان الفاظ ميں گويا اهلِ ايمان كو ترغيب دى جا رهى هے كه وه مالِ فے سے متعلق نئے قانون كے تحت رسول الله صلى الله عليه وسلم كے فيصلوں كو بخوشى قبول كريں. ظاهر هے لشكرِ اسلام ميں شامل لوگ تو بنو نضير كے علاقے سے حاصل هونے والے مال واسباب كو مالِ غنيمت سمجھتے هوئے اس ميں سے حصے كى توقع كر رهے تھے. اب جب مذكوره حكم كے تحت اس مال كو مالِ فے قرار دے كر اس كى تقسيم كا نيا قانون بنا ديا گيا تو لشكر كے شركا كو طبعِ بشرى كے تحت ايك دھچكا تو ضرور لگا هو گا. چنانچه اس حكم كے تحت بنو نضير كے محاصرے ميں شامل اهلِ ايمان كو بالخصوص اور تمام اهل ايمان كو بالعموم دين كا بنيادى اصول بتا ديا گيا كه تمهارے ليے الله كے رسول صلى الله عليه وسلم كا هر فيصله آخرى حكم كا درجه ركھتا هے. معامله چاهے كوئى بھى هو، الله كے رسول صلى الله عليه وسلم تم لوگوں كو جو دے ديں وه لے ليا كرو اور جس چيز سے آپ صلى الله عليه وسلم منع كر ديں اس سے منع هو جايا كرو.

وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ:  «اور الله كا تقوى اختيار كرو. بے شك الله تعالى سزا دينے ميں بهت سخت هے».

اب اگلى آيات ميں مالِ فے كى تقسيم كے بارے ميں مزيد وضاحت كى جا رهى هے كه جب يه مال مذكوره قانون كے تحت بيت المال ميں آ جائے گا تو اس كى تقسيم ميں بنيادى طور پر ضرورت مندوں كى ضروريات كو ترجيح دى جائے گى. ظاهر هے الله كے رسول صلى الله عليه وسلم تو اس ميں سے اپنے اور اپنے گھر والوں كے ليے وهى كچھ قبول كريں گے جو آپ كى انتهائى بنيادى ضروريات كے ليے ناگزير هو گا. آپ صلى الله عليه وسلم نے تو اپنى ذات اور ازواج مطهرات رضى الله عنهن پر شروع دن سے هى فقر طارى كر ركھا تھا. سورة الاحزاب كے چوتھے ركوع ميں واقعه ايلاء كے بارے ميں هم پڑھ آئے هيں كه ازواج مطهرات رضى الله عنهن كى طرف سے نان نفقه بڑھانے كے مطالبے پر حضور صلى الله عليه وسلم نے ان سے عليحدگى اختيار فرما لى تھى. چنانچه مالِ فے كا بڑا حصه كس كے ليے مختص كيا جائے گا:

UP
X
<>