April 25, 2024

قرآن کریم > الـحـشـر >sorah 59 ayat 9

وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 

(اور یہ مالِ فییٔ) اُن لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ (یعنی مدینہ میں ) اِیمان کے ساتھ مقیم ہیں ، جو کوئی ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے، یہ اُس سے محبت کرتے ہیں ، اور جو کچھ اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اُس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور اُن کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ، چاہے اُن پر تنگ دستی کی حالت گذر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں ، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں

آيت 9:  وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ:  «اور (اس مال ميں ان كا بھى حق هے) جو آباد تھے اپنے گھروں ميں اور جن كے پاس ايمان بھى تھا ان (مهاجرين كى آمد) سے پهلے»

يه انصارِ مدينه كا ذكر هے كه مهاجرين كى آمد پر ان كا طرزِ عمل كيا تھا:

يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ:  «وه محبت كرتے هيں ان سے جنهوں نے هجرت كى ان كى طرف»

مدينه منوره كے مسلمانوں نے مكه مكرمه سے آنے والے مهاجرين كو كھلے دل سے خوش آمديد كها. ان ميں سے كسى كے دل ميں قطعًا كوئى ايسا خيال نهيں آيا كه ان لوگوں كے آنے سے همارى آبادى بڑھ جائے گى اور ان كى نادارى ومحرومى همارى معيشت پر بوجھ بن جائے گى.

وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا:  «اور وه نهيں پاتے اپنے سينوں ميں كوئى حاجت اس بارے ميں كه جو كچھ ان (مهاجرين) كو ديا جاتا هے»

انصار مدينه كے دل اپنے مهاجر بھائيوں كے ليے ايثار وقربانى كے اعلى جذبات سے لبريز هيں، اور يه جذبات ان كے دلوں ميں اس دولتِ ايمان كے باعث پيدا هوئے هيں جس سے الله تعالى نے انهيں بهره ور فرمايا هے. يه آيت دراصل انصارِ مدينه كى تسكين وتشفّى كے ليے ان كے جذبه ايمان كو اپيل كرتے هوئے نازل هوئى تاكه اگر ان ميں سے كچھ لوگوں كے دلوں ميں بنو نضير كے چھوڑے هوئے مال سے متوقع حصه نه ملنے كے باعث كچھ ملال وغيره كے احساسات پيدا هوئے هوں تو وه ختم هو جائيں.

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ:  «اور وه تو خود پر ترجيح ديتے هيں دوسروں كو خواه ان كے اپنے اوپر تنگى هو».

ايثار كے معنى كسى كے ليے قربانى دينے اور دوسروں كو اپنے اوپر ترجيح دينے كے هيں. ظاهر هے انصارِ مدينه ميں سے بھى سب لوگ دولت مند تو نهيں تھے، ان ميں سے بھى بهت سے لوگ نادار اور تنگ دست تھے، ليكن ان ميں سے هر ايك نے اپنى احتياج اور ضرورت كو پسِ پشت ڈال كر استطاعت بھر اپنے مهاجر بھائيوں كى مدد كى تھى. ان كے اسى جذبه ايثار كا اعتراف يهاں اس آيت ميں كيا گيا هے.

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:  «اور جو كوئى بھى بچا ليا گيا اپنے جى كے لالچ سے تو وهى لوگ هيں فلاح پانے والے».

اب اس كے بعد جو آيت آ رهى هے وه اس لحاظ سے بهت اهم كه حضرت عمر فاروق رضى الله عنه نے ايران، عراق، مصر، شام وغيره كے مفتوحه علاقوں كى زمينوں كے بارے ميں فيصله كرتے هوئے اس آيت سے استدلال كيا تھا. ان علاقوں كى زمينيں بهت زرخيز هيں، خصوصى طور پر عراق اور شام كے درميان صحرا ميں واقع وه علاقه جو fertile crescent كهلاتا هے، اپنى زرخيزى كے اعتبار سے پورى دنيا ميں مشهور هے. جب يه وسيع وعريض علاقے فتح هوئے تو ان كى زرعى زمينوں كے نظم ونسق كا مسئله سامنے آيا. اس معاملے ميں زياده تر صحابه رضى الله عنهم كى رائے يه تھى كه مالِ غنيمت كى تقسيم كے اصول كے مطابق پانچواں حصه بيت المال كے ليے مختص كر كے باقى زمينيں هر محاذ كے مجاهدين ميں تقسيم كر دى جائيں. البته حضرت عمر رضى الله عنه اس رائے سے متفق نهيں تھے. آپ رضى الله عنه كى رائے يه تھى كه ان ممالك كى زمينيں مالِ غنيمت كے بجائے مالِ فے كے زمرے ميں آتى هيں، اس ليے ان پر مالِ فے كے قانون كا اطلاق هونا چاهيے. اس نكتے كى مزيد وضاحت يه هے كه مالِ غنيمت صرف وه مال هے جو جنگ ميں دشمن كو شكست دينے كے بعد عين محاذِ جنگ سے مسلمان مجاهدين كے هاتھ لگے. جيسے اسلحه، راشن، بھيڑ بكرياں، اونٹ گھوڑے، جنگى قيدى وغيره. ليكن اگر كسى ايك جنگ كے نتيجے ميں كوئى پورا ملك فتح هو جائے (جيسے ابراهيم لودھى پانى پت كے ميدان ميں بابر سے صرف ايك جنگ هارا تو اس كے نتيجے ميں پورے هندوستان پر بابر كا قبضه هو گيا) تو ميدانِ جنگ سے باهر كى اراضى، املاك اور آبادى كو مالِ فے شمار كيا جائے گا. حضرت عمر رضى الله عنه نے اس معاملے ميں اگلى آيت كے ان الفاظ سے استدلال كيا تھا: (وَالَّذِينَ جَاءُوْا مِنْ بَعْدِهِمْ)  «اور وه لوگ جو ان كے بعد آئيں گے». پچھلى آيات كے مضمون سے اس آيت كے ان الفاظ كا ربط يوں بنتا هے كه مالِ فے پر حق هے الله ورسول صلى الله عليه وسلم كا، رسول الله صلى الله عليه وسلم كے عزيز واقارب كا، غرباء ومساكين كا، انصار ومهاجرين كا (بحواله آيت: 7 اور 8) اور اُن لوگوں كا جو ان كے بعد آئيں گے. ان آيات كے سياق وسباق ميں حضرت عمر رضى الله عنه كا مؤقف يه تھا كه آج كے مالِ فے ميں اس اُمّت كے قيامت تك آنے والے مسلمانوں كا بھى حق هے اور اگر آج يه زمينيں چند هزار مجاهدين ميں تقسيم كر دى گئيں تو بعد ميں آنے والے مسلمان گويا اس حق سے محروم ره جائيں گے.

حضرت عمر رضى الله عنه كے اس استدلال سے بعض معتبر صحابه رضى الله عنهم نے اختلاف بھى كيا اور مذكوره زمينوں كو مالِ غنيمت كے قانون كے تحت متعلقه مجاهدين ميں تقسيم كرنے پر اصرار كيا. اس اختلافِ رائے كے بعد حضرت عمر رضى الله عنه نے اس معاملے ميں غور وخوض كے ليے اوس،خزرج اور مهاجرين ميں سے چند صحابه پر مشتمل ايك كميشن تشكيل دے ديا. كميشن كے اركان نے مسئلے سے متعلق مختلف آراء اور ديگر پهلوؤں كو مدِّنظر ركھتے هوئے متفقه طور پر جو فيصله ديا وه حضرت عمر رضى الله عنه كى رائے كے عين مطابق تھا، اور بعد ميں اسى فيصلے پر تمام صحابه كا اجماع هوا. صحابه رضى الله عنهم كے اس اجماع يا فيصلے كے مطابق تمام مسلم ممالك كى اراضى دو اقسام ميں بٹ گئى. جن علاقوں كے لوگ لڑے بھڑے بغير ايمان لے آئے ان كى زمينيں «عشرى زمينيں» (ايسى زمين جو انفرادى ملكيت ميں هو اور اس كى پيداوار سے باقاعده عشر وصول كيا جاتا هو) قرار پائيں. جبكه بزور شمشير فتح هونے والے ممالك كى زمينوں كو «خراجى زمينوں» (ايسى زمينيں جو بيت المال كى ملكيت هوں اور ان كو كاشت كرنے والے لوگ اسلامى حكومت كو خراج ادا كريں) كا درجه ديا گيا. مثلًا مدينه كو حضور صلى الله عليه وسلم نے كسى جنگ كے نتيجے ميں فتح نهيں كيا تھا بلكه مدينه كے لوگوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كو وهاں آنے كى خود دعوت دى تھى، اس ليے اوس اور خزرج كى تمام زمينيں «عشرى» قرار پائيں اور متعلقه لوگوں كى انفرادى ملكيت ميں هى رهيں، جبكه ايران، عراق، مصر، شام وغيره ممالك كى زمينيں «خراجى زمينوں» كى حيثيت سے اسلامى حكومت كى تحويل ميں چلى گئيں. اس طرح حضرت عمر رضى الله عنه كے اجتهاد كے نتيجے ميں انسانى تاريخ ميں پهلى مرتبه زمين كى اجتماعى ملكيت (collective ownership of land) كا نظام متعارف هوا. اس وقت مفتوحه علاقوں كى زمينيں اگر مالِ غنيمت كى حيثيت سے چند هزار مجاهدين ميں تقسيم كر دى جاتيں تو اسلامى حكومت كے تحت انسانى تاريخ كى سب سے بڑى جاگيردارى وجود ميں آ جاتى. اور پھر يه سلسله يهيں پر ختم نه هوتا بلكه جس ملك كى اراضى واملاك پر مالِ غنيمت كے قانون كا اطلاق هوتا اس ملك كى پورى آبادى كو جنگى قيديوں كى حيثيت سے غلام اور لونڈياں بنا كر تقسيم كرنے كا مطالبه بھى آتا.

اسى قانون كے تحت پچھلى صدى تك هندوستان كى زمينوں كے بارے ميں بھى يهاں كے علما كا اجماع تھا كه يهاں كى تمام زمينيں خراجى هيں اور اس حيثيت سے يه زمينيں يهاں كے مسلمانوں كى اجتماعى ملكيت هيں اور يه كه هندوستان ميں كوئى عشرى زمين نهيں هے. اس كا ذكر هندوستان كے عظيم مفسر ومحدث قاضى ثناء الله پانى پتى نے فقه كے مسائل سے متعلق اپنے رسالے «مَا لَا بُدَّ منه» ميں بھى كيا هے. قاضى صاحب موصوف بهت بڑے صوفى اور مفتى بھى تھے. ان كى لكھى هوئى «تفسير مظهرى» جسے انهوں نے اپنے مرشد مرزا جانِ جاناں رحمه الله كے نام سے منسوب كيا هے، آج كسى تعارف كى محتاج نهيں. قاضى صاحب كا مرتب كرده مذكوره رساله فقه كے بنيادى اور ابتدائى مسائل پر مشتمل هے اور برصغير كے تمام عربى مدارس ميں پڑھايا جاتا هے. اس رسالے ميں انهوں نے عشر سے متعلق مسائل شامل هى نهيں كيے اور اس كى وجه يه لكھى هے كه جب هندوستان ميں كوئى عشرى زمين هے هى نهيں اور عشر سے متعلق احكام كى تنفيذ وتعميل كا كوئى امكان هى نهيں تو ان مسائل كو لكھنے، پڑھنے يا سمجھنے كى بھى كوئى ضرورت نهيں. اس كا مطلب يه هے كه اس علاقے ميں جب كبھى اسلامى حكومت قائم هو تو نئے بندوبست اراضى كے تحت بڑے بڑے جاگيرداروں سے وه زمينيں واپس لى جا سكتى هيں جو ماضى كے بادشاهوں، انگريز حكمرانوں اور سپه سالاروں كى «نظرِ كرم» كے باعث انهيں عطا هوئى تھيں.

UP
X
<>