April 20, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 0

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان اور نہایت رحم والا ہے 

سُورۃُ الانْعام

تمہیدی کلمات

            جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے‘ حجم کے اعتبار سے قرآن مجید کا دو تہائی حصہ مکی ہے‘  جبکہ لگ بھگ ایک تہائی حصہ مدنی سورتوں پر مشتمل ہے۔ البتہ قرآن حکیم میں مکی اور مدنی سورتوں کے جو سات گروپ ہیں‘  ان میں سے پہلے گروپ میں مکی سورت صرف ایک ہے یعنی سورۃ الفاتحہ۔ یہ سورۃ اگرچہ حجم کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی (کل سات آیات پر مشتمل)  ہے‘  مگر معنوی اعتبار سے بہت عظمت اور فضیلت کی حامل ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سورۃ مکی اور مدنی تقسیم سے بہت اعلیٰ و ارفع اور بلند تر ہے۔ بہر حال مکی اور مدنی سورتوں کے پہلے گروپ میں تو مکی قرآن گویا بہت ہی تھوڑا ہے (سورۃ الفاتحہ کی صورت میں)‘  البتہ دوسرے گروپ میں دو بڑی مکی سورتوں یعنی سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف کا جوڑا شامل ہے۔ اب ہم اس جوڑے کی پہلی سورۃ یعنی سورۃ الانعام کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔

             ایک روایت کے مطابق سورۃ الانعام پوری کی پوری بیک وقت،  ایک ہی تنزیل میں نازل ہوئی اور حضرت جبرائیل ستر ہزار فرشتوں کے جلو میں اس سورۃ کو لے کر اُترے۔ اس سورت سے مکی اور مدنی سورتوں کا دوسرا گروپ شروع ہو رہا ہے جو چار سورتوں پر مشتمل ہے۔  یہ گروپ اس لحاظ سے بہت متوازن ہے کہ اس میں دو مکی سورتیں (الانعام اور الاعراف)  اور دو ہی مدنی سورتیں (الانفال اور التوبہ)  ہیں۔ مضامین کی مناسبت سے یہ چاروں سورتیں بھی دو دو کے جوڑوں میں ہیں‘  یعنی ایک جوڑا مکی سورتوں کا جب کہ دوسرا جوڑا مدنی سورتوں کا۔

             اس سے پہلے ہم مدنی قرآن پڑھ رہے تھے (سوائے سورۃ الفاتحہ کے)‘  لیکن اب مکی قرآن کا ایک حصہ ہمارے زیر مطالعہ آ رہا ہے۔ سورۃ البقرۃ‘  سورہ آل عمران‘  سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ (مدنیات)  میں منافقین اور یہود ونصاریٰ سے براہِ راست خطاب تھا‘ لیکن اب مکی سورتوں (سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف) میں مشرکین عرب سے گفتگو ہے۔ سورۃ الاعراف میں اہل ِکتاب کا ذکر تو ہے‘  لیکن یہاں ان سے براہ راست کوئی خطاب یا گفتگو نہیں ہے۔

            مکی اور مدنی سورتیں اپنے ماحول اور پس منظر کے اعتبار سے مضامین و موضوعات کے دو الگ الگ گلدستے پیش کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے مکی اور مدنی قرآن کو دو الگ الگ جنتوں کے نام سے موسوم کر رکھا ہے  --- قرآن حکیم میں ارشاد ہے: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ.   (الرحمٰن)  ’’اور جو کوئی اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈر گیا اُس کے لیے دو جنتیں ہوں گی‘‘   ----  قرآن مجید کی ایک مکی جنت ہے اور دوسری مدنی جنت۔  گویا قبل ازیں ہم مدنی جنت کی سیر کر رہے تھے‘ اب ہم مکی جنت میں داخل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا سورۃ الانعام پڑھتے ہوئے آپ بالکل نیا ماحول محسوس کریں گے۔ یہ دونوں سورتیں (سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف)  چونکہ رسول اللہ کے قیا مِ مکہ کے تقریباً آخری دور میں نازل ہوئی تھیں اس لیے ان میں مشرکین عرب (بنی اسماعیل)  پر بالکل اسی انداز سے اتمامِ حجت کیا گیا ہے جیسے مدنی سورتوں میں اہل ِکتاب پر کیا گیا تھا۔ پھر ان سورتوں کے موضوعات کے اندر بڑی پیاری تقسیم ملتی ہے۔  مکی سورتوں کا اہم ترین مضمون «ایمان» ہے یعنی ایمان باللہ ‘  ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت‘  وغیرہ۔ ایمان کی طرف بلانے کے لیے شاہ ولی اللہ دہلوی کی اصطلاحات کے مطابق قرآن حکیم میں دو طرح سے استدلال کیا جاتا ہے: التذکیربآلَاء اللّٰہ اور التذکیر بِاَیَّامِ اللّٰہ۔

            التذکیربآلَاء اللّٰہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے احسانات ‘  اس کی نعمتوں‘  اس کی عظمت وقدرت ‘  اس کی آیاتِ آفاقیہ و آیاتِ انفسیہ وغیرہ کے حوالے سے یاد دہانی اور تذکیر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان ہمارے اندر پہلے سے بالقوۃ (potentially)  تو موجود ہے ‘ مگر یہ فعال نہیں ہے‘  سویا ہوا (dormant) ہے۔ اسے فعال (active) کرنے اور جگانے کے لیے اللہ کی قدرت‘ اس کی نعمتوں اور انفس و آفاق میں اس کی نشانیوں سے استدلال کر کے یاد دہانی کرائی جاتی ہے‘  جس کو شاہ ولی اللہ نے التّذکیر بِآلَاء اللّٰہ کا نام دیا ہے۔

            دعوت اِلی الا یمان کے قرآنی استدلال کا دوسرا پہلو یا طریقہ شاہ ولی اللہ کے مطابق  التّذکیر بِاَیَّامِ اللّٰہ ہے‘  یعنی اللہ کے دِنوں کے حوالے سے استدلال۔  اللہ کے دنوں کے اعتبار سے سب سے اہم اور عبرت ناک وہ دِن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی قوموں کو تہس نہس کر دیا۔ اس سلسلے میں اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا اور اُس نے اپنی امکانی حد تک محنت و مشقت کی‘  قوم کے افراد کو حق کی دعوت پہنچا دی‘  حق کو مبرہن کر دیا ‘  ان پر حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت ہو گیا، اور اُس قوم کے افراد کو اللہ کا پیغام پہنچا کر ان پر اتمامِ حجت کر دیا‘ مگروہ قوم پھر بھی کفرپر اڑی رہی اور اُس نے  رسول کی دعوت کو رد کر دیا تو پھر اُس قوم کے ساتھ رعایت نہیں برتی گئی اور بے لاگ فیصلہ سنا دیا گیا‘  یعنی وہ قوم ختم کر دی گئی۔ جیسے قومِ نوح کے ساتھ ہوا تھا‘  حضرت نوح  اورآپ کے معدودے چند اہل ِایمان ساتھی ایک کشتی پر محفوظ رہے‘  باقی پوری نوع ِ انسانی (جو اُس وقت تک اُتنی ہی تھی) نیست و نابود کر دی گئی۔ قومِ عاد پوری ختم کر کے نسیاً مّنسیا کر دی گئی‘  صرف حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والے چند لوگوں کو بچایا گیا۔ حضرت صالح  اورمٹھی بھر اہل ایمان کے علاوہ قومِ ثمود کو بھی برباد کر دیا گیا۔ اسی طرح قومِ شعیب کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عامورہ اور سدوم کی بستیوں کو بھی ملیا میٹ کر دیا گیا‘  صرف حضرت لوط  اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہاں سے نکل سکے ‘ باقی پوری قوم ختم ہو گئی۔ اسی طرح آلِ فرعون کو بھی غرق کر دیا گیا۔

            یہاں پر رسول اور نبی کی دعوت کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ رسول کی دعوت کا انکار کرنے کی صورت میں متعلقہ قوم تباہ و برباد کر دی جاتی ہے۔ ان کے اس انکار سے گویا ثابت ہو گیا کہ ان میں کوئی خیر نہیں ہے‘  ان کی حیثیت محض اُس جھاڑ جھنکاڑ کی ہے جسے جمع کر کے آگ لگا دی جاتی ہے۔ اللہ کی طرف سے رسول کے آجانے کے بعد بھی اگر کسی قوم کی آنکھیں نہیں کھلتیں تو وہ گویا زمین کا بوجھ ہے‘  جس کا صفایا ضروری ہے۔ جب کہ نبی کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔ نبی کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے اولیاء اللہ ہیں۔ جس نے ان کی بات مان لی اس کو فائدہ ہو گیا‘  جس نے نہیں مانی اس کو ذاتی طور پر نقصان ہو جائے گا‘  لیکن نبی کے انکار سے پوری قوم کی تباہی اور ہلاکت نہیں ہوا کرتی۔ عام اولیاء اللہ اور انبیاء میں فرق یہ ہے کہ عام اولیاء اللہ پر وحی نہیں آتی‘  جبکہ انبیاء پر وحی آتی تھی۔

            اس کے علاوہ ازلی و ابدی حقائق بھی اَیَّامِ اللّٰہ میں شامل ہیں‘  یعنی ازل میں کیا واقعات پیش آئے‘  ابد میں کیا ہو گا‘  بعث بعد الموت کی تفصیلات‘  عالم ِبرزخ اور عالم آخرت کے احوال‘  اصحابِ جنت‘  اصحابِ جہنم‘  اور اصحابِ اعراف کی کیفیات وغیرہ۔ اس لحاظ سے سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں موضوعات کی جو ایک خوبصورت اور متوازن تقسیم ملتی ہے وہ اس طرح ہے کہ سورۃ الانعام میں جگہ جگہ التذکیر بِآلَاء اللّٰہ کی تفصیلات ہیں ‘  جبکہ سورۃ الاعراف کا بڑا حصہ  التذکیربِاَیَّامِ اللّٰہ  پر مشتمل ہے۔

            مکی اور مدنی سورتوں کے مضامین میں جو بنیادی فرق ہے اسے ایک دفعہ پھر سمجھ لیجیے۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر گفتگو اور بحث و نزاع مشرکین عرب کے ساتھ ہے‘  لہٰذا ان سورتوں کا اصل مضمون توحید ہے ‘  یعنی توحید کا اثبات‘ شرک کی نفی اور ایمانیات کا تذکرہ ہے۔  ان سورتوں میں اہل ایمان سے خطاب بہت کم ہے‘  اور ہے بھی تو براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ہے۔ یعنی رسول اللہ سے واحد کے صیغے میں خطاب کیا جاتا ہے اور آپ کے ذریعے سے مسلمان مخاطب ہوتے ہیں۔ ان سورتوں میں نفاق کا ذکر شاید ہی کہیں ملے‘  کیونکہ مکی دور میں نفاق کا مرض موجود ہی نہیں تھا۔ اہل مکہ کے اندر کردار کی پختگی تھی‘  وہ وعدے کے پکے تھے‘  جس چیز کو مانتے تھے پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ مانتے تھے اور نہ ماننے کی صورت میں اُن کی مخالفت بھی بہت شدید ہوتی تھی۔ ان میں چال بازیاں اور ریشہ دوانیاں نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ مکی سورتوں میں انسانی اخلاقیات پر بڑا زور دیا گیا ہے‘ مثلاً سچ بولنے کی تاکید ‘  جھوٹ کی حوصلہ شکنی‘  بخل کی مذمت ‘  سخاوت کی تعریف‘  مساکین کو کھانا کھلانے پر زور اور ان لوگوں پر تنقید جو دولت مند ہونے کے باوجود کٹھور دل ہیں۔ اِن سورتوں کا ایک خاص اور اہم مضمون سابقہ قوموں اور رسولوں کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے جو بڑی تفصیل اور تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ ان سورتوں میں اس سلسلے میں جو فلسفہ بار بار بیان ہوا ہے اس کا ذکر ’’التذکیربِاَیَّامِ اللّٰہ‘ ‘  کے ضمن میں پہلے گزر چکا ہے۔  اس فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کا انکار کرنے والی قوم کو عذابِ استیصال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جیسے ارشاد ہوا: فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا.   ( الانعام : 45)  ’’پس جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ظالم قوم کی۔‘ ‘

            دوسری طرف مدنی سورتوں میں زیادہ تر خطاب یا تو مسلمانوں سے بحیثیت اُمت ِمسلمہ ہے یا پھر اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)  سے بحیثیت سابقہ اُمت ِمسلمہ‘  دعوت کے انداز میں بھی اور ملامت کے انداز میں بھی‘  ترغیب سے بھی اور ترہیب سے بھی۔ ان سورتوں میں نفاق اور منافقین کا ذکر کثرت سے ہے۔ اوس اور خزرج کے جو لوگ مدینہ میں آباد تھے وہ اگرچہ اصل میں عرب تھے‘  لیکن یہودیوں کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے اُن کا مزاج اور کردار بدل چکا تھا۔ جو اخلاقی خرابیاں کسی بگڑی ہوئی مسلمان اُمت میں ہوتی ہیں وہ یہودِ مدینہ میں بتمام و کمال موجود تھیں اور ان کے زیر اثر اوس و خزرج کے لوگوں میں بھی اخلاق و کردار کی ویسی ہی کمزوریاں کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ میں منافقین کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ ان سورتوں کا یہ ایک مستقل مضمون ہے۔ مدنی سورتوں کا اہم ترین مضمون احکامِ شریعت یعنی جائز و ناجائز‘  فرائض‘  واجبات‘  اوامر و نواہی وغیرہ کی تفاصیل ہیں۔

             مکی سورتوں کے مضامین کی ایک اور تقسیم بھی سمجھ لیں۔  مکی اور مدنی سورتوں کے جن سات گروپوں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ان کے دوسرے اور تیسرے گروپ میں جو مکی سورتیں (سورۃ الانعام‘  سورۃ الاعراف اور سورہ یونس سے لے کر سورۃ المؤمنون تک مسلسل چودہ سورتیں)  شامل ہیں ان میں ایمانیات میں سے زیادہ زور رسالت پر ہے‘  درمیانی دو گروپس کی سورتوں میں زیادہ زور توحید پر ہے‘  جبکہ آخری دو گروپوں میں شامل مکی سورتوں میں زیادہ زور آخرت (بعث بعد الموت‘  جزا و سزا‘  جنت اور جہنم) پر ہے۔

UP
X
<>