April 23, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 1

الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِم يَعْدِلُونَ 

تمام تعریفیں اﷲ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پید اکیا، اور اندھیریاں اور روشنی بنائی۔ پھر بھی جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں

آیت 1:   اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ:  ’’کل تعریف اور تمام شکر اُس اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور بنایا اندھیروں اور اُجالے کو۔‘ ‘

            یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورۃ ’’اَلْحَمْدُ‘‘ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔  مثلاً قرآن کا آغاز: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.  سے ہوا ہے‘  پھر ساتویں پارے میں سورۃ الانعام: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ.   سے شروع ہو رہی ہے‘  اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورۃ الکہف کا آغاز:  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّـہ عِوَجًا.  سے ہو رہا ہے‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں (سورۂ سبا اور سورۂ فاطر)   اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ:  سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔

            دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے اَفعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔  آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے‘  لیکن اندھیرا اوراُجالا اس طرح کی مادی چیزیں نہیں ہیں (بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں‘  کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے)۔  اس لیے ان کے لیے الگ فعل «جَعَلَ» استعمال ہوا ہے کہ اُس نے ٹھہرا دیے‘  بنا دیے‘  نمایاں کر دیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اُجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔

            ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُــوْنَ:   ’’پھر بھی وہ لوگ جو اپنے رب کا کفر کرتے ہیں اُس کے برابر کیے دیتے ہیں (جھوٹے معبودوں کو) ۔ ‘‘

            یعنی  ’’یَعْدِلُوْنَ بِہ شُرَکَاءَھُمْ‘ ‘ کہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کر دیتے ہیں‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے‘  حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے‘  لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔

            شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے‘  بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے‘  چنانچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے  ع: ’’اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے!‘‘  یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔

            شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورۃ النساء (آیت: 48 اور 116)  میں پڑھ چکے ہیں: اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ.   ’’اللہ تعالیٰ اِسے ہر گز معاف نہیں فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے‘  البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا‘‘۔  اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا‘  بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہو جائے تو یہ بھی معاف ہو سکتا ہے۔ سورۃ النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی‘  اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوامیم (وہ سورتیں جن کا آغاز  حٰمٓ سے ہوتا ہے)  میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورۃ الفرقان سے سورۃ الاحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ  ہے‘ جس میں سورۂ  یٰسٓ‘  سورۂ فاطر‘  سورۂ سبا ‘ سورۂ صٓ اور حوامیم بھی شامل ہیں۔  سورۂ  یٰسٓ اس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔  اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہر حال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘ ‘  کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ (یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جواسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں) بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔ 

UP
X
<>