May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 152

وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اُس وقت تک اُس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اُس کے حق میں ) بہترین ہو، اور ناپ تول پورا پورا کیا کرو، (البتہ) اﷲ کسی بھی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کرو۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اﷲ نے تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو

آیت 152:  وَلاَ تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہ:  ’’اور یتیم کے مال کے قریب مت پھٹکو، مگر بہترین طریقے سے (اس کے مال کی حفاظت کرو) یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔،،

            یتیم کے مال کو ہڑپ کرنا یا اپنا ردی مال اس کے مال میں ملا کراس کے اچھے مال پر قبضہ کرنے کا حیلہ کرنا بھی حرام ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ مکی دور کے احکام ہیں لیکن یتیموں کے حقوق کی اہمیت کے پیش نظر مدنی سورتوں میں بھی اس بارے میں احکام آئے ہیں، مثلاً سورۃ البقرۃ، آیت: 220 اور سورۃ النساء آیت: 2 میں بھی یتیموں کے اموال کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس سے قبل ہم پڑھ چکے ہیں۔

            وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا:  ’’اور پورا کرو ناپ اور تول کو عدل کے ساتھ۔ ہم نہیں ذمہ دار ٹھہرائیں گے کسی بھی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔،،

            یعنی بغیر کسی ارادے کے اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس پر گرفت نہیں۔ جیسے دعا کے لیے ہمیں یہ کلمات سکھائے گئے ہیں: رَبَّـنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا.  (البقرۃ : 286) ’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے تو ہم سے مؤاخذہ نہ کرنا،،۔ لیکن اگر جان بوجھ کر ذرا سی بھی ڈنڈی ماری تو وہ قابل گرفت ہے۔ اس لیے کہ عملاً معصیت کا ارتکاب کرنا در حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو تمہیں آخرت کا یقین نہیں ہے یا پھریہ یقین نہیں ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ گویا عمداً ذرا سی منفی جنبش میں بھی ایمان کی نفی کااحتمال ہے۔

            وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَبِعَہْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا:  ’’اور جب بھی بات کرو تو عدل (کی با ت) کرو، خواہ قرابت دار ہی (کا معاملہ) ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔،،

            تمہاری بات چیت کھری اور انصاف پر مبنی ہو۔ اس میں جانبداری نہیں ہونی چاہیے، چاہے قرابت داری ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اللہ کے نا م پر، اللہ کے حوالے سے، اللہ کی قسم کھا کر جو بھی عہد کیا جائے اس کو بھی پورا کرو۔ جیسے «اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ» بھی ایک عہد ہے جو ہم اللہ سے کرتے ہیں۔ ہر انسان نے دنیا میں آنے سے پہلے بھی اللہ سے ایک عہد کیا تھا ، جس کا ذکر سورۃ الاعراف (آیت: 127) میں ملتا ہے۔ اسی طرح روزِ مرہ کی زندگی میں بھی بہت سے عہد ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔

            ذٰلِکُمْ وَصّٰٹکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ:  ’’یہ ہیں (وہ چیزیں) جن کا اللہ تمہیں حکم کر رہا ہے تاکہ تم نصیحت اخذ کرو۔،،

            یہ وہ چیزیں ہیں جو دین میں اہمیت کی حامل اور انسانی کردار کی عظمت کی علامت ہیں۔ یہ انسانی تمدن اور اخلاقیات کی بنیادیں ہیں۔

UP
X
<>