May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 158

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيهُمُ الْمَلآئِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ 

یہ (ایمان لانے کیلئے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ، یا تمہارا پروردگار خود آئے، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں ؟ (حالانکہ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی، اُس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اُس کیلئے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایما ن نہ لایا ہو، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔ (لہٰذا ان لوگوں سے) کہہ دو کہ : ’’اچھا، انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں ۔ ‘‘

آیت 158: ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلآَّ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ:  ’’یہ لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے اس کے کہ ان کے پاس فرشتے آ جائیں، یا آپ کا رب خود آجائے یا پھر آپ کے رب کی کوئی نشانی آ جائے!،،

            دراصل یہ ان واقعات یا علامات کا ذکر ہے جن کا ظہور قیامت کے دن ہونا ہے۔ جیسے سورۃ الفجر میں فرمایا: وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا  وَجِایْٓئَ یَوْمَئِذٍ بِجَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَـہُ الذِّکْرٰی. ’’قصۂ زمین برسر زمین،، کے مصداق روزِ محشر فیصلہ یہیں اسی زمین پر ہو گا۔ یہیں پر اللہ کا نزول ہوگا، یہیں پر فرشتے پرے باندھے کھڑے ہوں گے اوریہیں پر سارا حساب کتاب ہو گا۔ چنانچہ اس حوالے سے فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ سب علامات ظہور پذیر ہو جائیں؟ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے:

            یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا:  ’’جس دن آپ کے ربّ کی بعض (مخصوص) نشانیاں ظاہر ہو گئیں تو پھر کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا،،

            لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَـبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا:  ’’جو پہلے سے ایمان نہیں لا چکا تھا یا اُس نے اپنے ایمان میں کچھ خیر نہیں کما لیا تھا۔،،

            دراصل جب تک غیب کا پردہ پڑا ہوا ہے تب تک ہی اس امتحان کا جواز ہے۔ جب غیب کا پردہ ہٹ جائے گا تو یہ امتحان بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت پھر جو صورتِ حال سامنے آئے گی اس میں تو بڑے سے بڑا کافر بھی عابد و زاہد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن جو شخص یہ نشانیاں ظاہر ہونے سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور ایمان کی حالت میں اعمالِ صالحہ کا کچھ توشہ اس نے اپنے لیے جمع نہیں کر لیا تھا، اس کے لیے بعد میں ایمان لانا اور نیک اعمال کرنا کچھ بھی سود مند نہیں ہو گا۔

            قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ:  ’’(تو اے نبی!) کہہ دیجیے تم بھی انتظارکرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔،،

            اب انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

UP
X
<>