May 4, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 33

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ 

 (اے رسول !) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں

            اب وہ مقام آ گیا ہے جسے میں  نے اس سورۃ کے عمود کا ذروۂ سنام (climax) قرار دیا تھا۔ یہاں  ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے، لیکن ہمیں  ترجمانی کی کوشش تو بہر حال کرنی ہے۔

آیت 33:   قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہ لَـیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَـقُوْلُوْنَ:   ’’(اے نبی)  ہمیں  خوب معلوم ہے جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس سے آپ غمگین ہوتے ہیں ،،

            ہم جانتے ہیں  کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں،  آپ سے جو معجزات کا تقاضا کر رہے ہیں  اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں ۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں  کے درمیان آ گئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں  کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے:

            فَاِنَّـہُمْ لاَ یُـکَذِّبُوْنَکَ وَلٰـکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ:   ’’تو (اے نبی! آپ صبر کیجیے)  یقینا وہ آپ کو نہیں  جھٹلا رہے ، بلکہ یہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں  کا انکار کر رہے ہیں ۔،،

            یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں، ہمارا انکار کر رہے ہیں،  آپ کا انکار انہوں  نے کب کیا ہے؟ یہاں  سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے! کیا انہوں  نے آپ کو جھوٹا کہا؟ نہیں  کہا! آپ پر کوئی تہمت انہوں  نے لگائی؟ نہیں  لگائی! لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں،  یہ آپ کی تکذیب تو نہیں  ہو رہی،  تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے،  غصہ تو ہمیں  آنا چاہیے،  ناراض تو ہمیں  ہونا چاہیے۔  یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں ۔  آپ کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔  یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے،  جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں  ضرور رکھئے کہ اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ 

UP
X
<>