March 29, 2024

قرآن کریم > الـمـمـتـحنة >sorah 60 ayat 9

إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ 

اﷲ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے، اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہیں نکالنے میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے، تم اُن سے دوستی رکھو۔ اور جو لوگ اُن سے دوستی رکھیں گے، وہ ظالم لوگ ہیں

آيت 9:  إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ:  «وه تو تمهيں منع كرتا هے ان لوگوں سے جنهوں نے تم سے دين كے معاملے ميں جنگ كى اور تمهيں تمهارے گھروں سے نكالا اور تمهارے نكالنے ميں دوسروں كى مدد كى كه تم ان كے ساتھ ولايت اور دوستى كا رشته قائم كرو».

وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ:   «اور جو كوئى ان كے ساتھ دوستى كرے گا تو وهى لوگ هيں جو ظالم هيں».

اب اگلى آيات ميں خواتين سے متعلق چند مسائل كا ذكر آ رها هے جو صلح حديبيه (6 هجرى) كے نتيجے ميں سامنے آئے تھے. صلح حديبيه كے شرائط ميں سے ايك شرط يه بھى تھى كه اگر كوئى مسلمان مكه سے بھاگ كر مدينه آئے گا تو مسلمان اسے واپس كرنے كے پابند هوں گے، ليكن مدينه سے اگر كوئى مسلمان اپنا دين چھوڑ كر واپس مكه آ جائے گا تو قريش اسے واپس نهيں كريں گے. اس معاهدے كے بعد چند مسلمان خواتين مكه سے هجرت كر كے مدينه آئيں تو قريش كى طرف سے مطالبه آيا كه انهيں واپس كيا جائے. اس پر حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه معاهدے كى متعلقه شق مردوں (رجال) سے متعلق هے، اس ميں عورتوں (نساء) كا ذكر نهيں هے، اس ليے ان خواتين كو واپس نهيں كيا جائے گا. اس مثال كے بعد مكه سے كچھ مزيد خواتين بھى آنا شروع هو گئيں تو ايسى مهاجر خواتين كے بارے ميں تحقيق وتفتيش كى ضرورت محسوس هوئى. خدشه يه تھا كه هجرت كے نام پر مشرك عورتيں جاسوسى وغيره كے ليے مكه سے مدينه آ كر آباد نه هو جائيں اور ان كى وجه سے بعد ميں مسلمان معاشرے ميں كوئى مسئله كھڑا نه هو. پھر ان ميں سے كچھ ايسى شادى شده خواتين بھى تھيں جو اپنے مشرك شوهروں كو چھوڑ كر آ رهى تھيں، ان كے بارے ميں بھى يه سوال اپنى جگه جواب كا متقاضى تھا كه كيا وه مسلمان هو جانے كے بعد بھى مشرك شوهروں كى زوجيّت ميں هيں يا كه آزاد هو چكى هيں؟ اور اسى معاملے سے متعلق يه مسئله بھى اهم تھا كه كسى ايسى عورت كے مدينه آ جانے كے بعد كيا كوئى مسلمان اس سے نكاح كر سكتا هے يا نهيں؟ چنانچه اگلى دو آيات ميں ان مسائل سے متعلق هدايات دى گئى هيں. جبكه اس كے بعد ايك آيت ميں مسلمان خواتين كى بيعت كا ذكر هے. قرآن مجيد ميں ذكر تو مردوں كى بيعت (بيعتِ رضوان) كا بھى هے، ليكن اس بيعت كے الفاظ كيا تھے، يا بيعتِ عقبه اولى اور بيعتِ عقبه ثانيه كا مضمون كيا تھا؟ يه تفصيل هميں احاديث سے ملتى هے، قرآن ميں ان كا ذكر نهيں. اس لحاظ سے يهاں خواتين كو مردوں پر ايك طرح سے فضيلت دى گئى هے كه آيت: 12 ميں ان كى بيعت كے حكم كے ساتھ بيعت كا پورا متن بھى دے ديا گيا هے.

ميں سمجھتا هوں كه الله تعالى كى طرف سے خواتين كو يه خصوصى انعام ان كے حقوق كے پلڑے كا توازن درست ركھنے كے ليے ديا گيا هے. الله تعالى كى طرف سے مقرر كرده قوانين وضوابط اور حقوق وفرائض كى خصوصيت هى يهى هے كه وه هر لحاظ سے متوازن هيں. اگر كسى معاملے ميں كوئى ايك حكم زياده سخت هو تو اس كے پهلو ميں كهيں كوئى نرم قانون بھى موجود هوتا هے. اگر كهيں كسى كے فرائض كا وزن زياده هو رها هو تو اس كے حقوق كے پلڑے ميں كچھ مزيد ڈال كر اس كى ميزان كو برابر كر ديا جاتا هے. مياں بيوى كے حقوق وفرائض هى كى مثال لے ليں، قرآن مجيد نے طلاق كا حق صرف خاوند كو ديا هے، اس كے مقابلے ميں بيوى صرف خلع لے سكتى هے، طلاق نهيں دے سكتى. اسى طرح اگر مياں بيوى ميں طلاق هو جائے تو اولاد قانونًا والد كى شمار هوتى هے. ان دو مثالوں سے خاوند كے حقوق يا اختيارات كا پلڑا غير معمولى طور پر جھكتا هوا نظر آتا هے، ليكن دوسرى طرف ديكھيں تو اولاد كے ليے ماں كا حق باپ كے حق كے مقابلے ميں تين گنا زياده ركھا گيا هے اور جنت كى بشارت صرف ماں كے قدموں كے حوالے سے دى گئى هے. يوں الله تعالى اپنے قوانين وضوابط كو متوازن بناتے هيں اور هر كسى كے حقوق وفرائض كى ترازو كے هر دو پلڑوں كو برابر ركھتے هيں.

UP
X
<>