April 23, 2024

قرآن کریم > الـصّـف >sorah 61 ayat 4

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ

حقیقت یہ ہے کہ اﷲ اُن لوگون سے محبت کرتا ہے جو اُس کے راستے میں اس طرح صف بنا کر لرتے ہیں جیسے وہ سییسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں

آيت 4:  إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ:  «الله كو تو محبوب هيں وه بندے جو اس كى راه ميں صفيں باندھ كر قتال كرتے هيں، جيسے كه وه سيسه پلائى ديوار هوں».

آج كے زمانے ميں «بنيانِ مرصوص» reinforced concrete wall كو كها جائے گا. ايسى ديواريں بڑے بڑے dams كے ليے بنائى جاتى هيں. البته پرانے زمانے ميں اگر كسى ديوار كو غير معمولى طور پر مضبوط كرنا مقصود هوتا تو چنائى كرنے كے بعد اس كے اندر پگھلا هوا تانبا ڈالا جاتا تھا. يهى وجه هے كه اردو ميں عام طور پر «بنيانِ مرصوص» كا ترجمه: سيسه پلائى هوئى ديوار كے الفاظ ميں كيا جاتا هے. پرانے زمانے ميں اس طريقه سے «سيسه پلائى هوئى ديوار» بنانے كا تصور سورة الكهف كى آيت: 96 ميں بھى ملتا هے. ذوالقرنين بادشاه نے ياجوج وماجوج كے حملوں سے حفاظت كے ليے لوهے كے تختوں كى مدد سے ديوار كھڑى كرنے كے بعد حكم ديا تھا:  ﴿آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا﴾  «اب لاؤ ميں اس پر پگھلا هوا تانبا ڈال دوں». بهرحال يهاں بنيان مرصوص سے مراد ميدانِ جنگ ميں مجاهدين كى ايسى صفيں هيں جن ميں كوئى رخنه يا خلا نه هو اور ايك ايك مجاهد اپنى جگه پر اس قدر مضبوطى سے كھڑا هو كه دشمن كے ليے صف كے كسى ايك حصے كو بھى دھكيلنا ممكن نه هو.

يهاں ضمنى طور پر يه مسئله بھى سمجھ ليں كه نماز كے ليے همارى صف بندى كى بھى يهى كيفيت هونى چاهيے. ايك صف كے تمام نمازيوں كو كندھے سے كندھا ملا كر كھڑے هونا چاهيے اور ان كے پيروں كے محاذات بھى ايك هونے چاهئيں، يعنى تمام لوگوں كے پاؤں ايك سيدھ ميں هوں تاكه صف سيدھى رهے. دو آدميوں كے درميان خلا بالكل نهيں هونا چاهيے. حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے كه جماعت كى صف ميں دو نمازيوں كے درميان خلا كى جگه سے شيطان گزر جاتا هے. جماعت كے ليے صف بندى كا اهتمام كرانا دراصل امام كى ذمه دارى هے، ليكن مقامِ افسوس هے كه همارے اكثر ائمه مساجد اس طرف كوئى توجه هى نهيں ديتے. البته اس ضمن ميں ضرورت سے زياده شدّت بھى مناسب نهيں، جيسے بعض لوگ غير معمولى طور پر ٹانگيں پھيلا كر دوسرے نمازى كے پاؤں پر اپنا پاؤں چڑھا ديتے هيں اور دوسروں كے ليے كوفت كا باعث بنتے هيں.

بهرحال همارے ليے اس آيت كا اصل پيغام يه هے كه اسلام ميں سب سے بڑى نيكى اور الله تعالى كے نزديك سب سے پسنديده عمل «قتال في سبيل الله» هے. فلسفے كى اصطلاح ميں سب سے اعلى خير يا نيكى كو summum bonum كهتے هيں. هر فلسفه اخلاق ميں ايك خير اعلى (summum bonum) يا بلند ترين نيكى (highest virtue) كا تصور هوتا هے. چنانچه اس آيت كے اصل پيغام كو اگر فلسفه كى زبان ميں بيان كريں تو يوں كهيں گے كه اسلام كے نظامِ فكر اور اس كے نظريه اخلاق ميں بلند ترين نيكى يا خير اعلى (summum borum) قتال في سبيل الله هے. چنانچه جو كوئى الله كا قرب حاصل كرنا چاهتا هو اسے اپنى سب سے قيمتى متاع يعنى اپنى جان اس كى راه ميں قربانى كے ليے پيش كرنا هو گى. جو شخص اس قربانى كے ليے تيار نه هو اسے چاهيے كه وه الله تعالى كى محبت وقربت كا دعوى بھى نه كرے. بقول غالب، ع:

«جس كو هو جان ودل عزيز اس كى گلى ميں جائے كيوں!»

يهاں سورت كے پهلے حصے كا مطالعه مكمل هو گيا. اب آينده چار آيات ميں بنى اسرائيل كا ذكر هے كه الله تعالى كے جليل القدر پيغمبروں كے ساتھ ان كا طرزِ عمل كيا تھا. يهود كى تاريخ كے حوالے سے دراصل مسلمانوں كو متنبه كيا جا رها هے كه قول وعمل كا تضاد اور ايمان كے عملى تقاضوں كى ادائيگى سے پهلو تهى هى وه اصل جرم تھا جس كى پاداش ميں يهود اس مقام اور منصب سے معزول كر ديے گئے جس پر اب تم فائز كيے گئے هو.

UP
X
<>