April 26, 2024

قرآن کریم > الـصّـف >sorah 55 ayat 9

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اُسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی بُری لگے

يهاں سے اس سورت كے تيسرے حصے كا آغاز هو رها هے. آيت: 9 ميں حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت كا ذكر هوا هے:

آيت 9:  هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ:  «وهى هے (الله) جس نے بھيجا اپنے رسول كو الهدى اور دين حق كے ساتھ تاكه غالب كر دے اس كو پورے نظامِ زندگى پر»

حضور صلى الله عليه وسلم كے مقصدِ بعثت كے حوالے سے يه آيت خصوصى اهميت كى حامل هے اور اسى اهميت كے باعث قرآن مجيد ميں اسے تين بار (اس مقام كے علاوه سورة التوبه، آيت: 33 اور سورة الفتح، آيت: 28 كے طور پر) دهرايا گيا هے. تمام انبياء ورسل عليهم السلام كے ليے قرآن مجيد ميں بشير، نذير، مذكّر، شاهد، معلم وغيره كے الفاظ مشترك استعمال هوئے هيں، ليكن اس آيت كا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كے ليے خاص هے. الهدى سے مراد يهاں وه هدايت نامه (قرآن) هے جو آپ صلى الله عليه وسلم پر كامل هو گيا، جبكه آپ سے پهلے تمام انبياء كو اپنے اپنے دور ميں جو ميزان (شريعت) عطا هوتى رهى تھى حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت ميں وه كامل هو كر «دينُ الحَقّ» يعنى سچے اور عادلانه نظامِ زندگى كى شكل اختيار كر گئى. چنانچه آپ صلى الله عليه وسلم كو الهدى اور دين حق كے ساتھ اس ليے بھيجا گيا تاكه الله كے نظامِ عدل وقسط كو دنيا كے تمام نظاموں پر غالب كر ديا جائے. يه تھا حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت كا مشن جسے تكميل كے ليے آپ صلى الله عليه وسلم همارے سپرد فرما گئے تھے. ليكن هم نے تو اس مشن كو كبھى اپنايا هى نهيں. همارا مشن تو يه هے كه حلال وحرام طريقے سے جيسے بھى هو دولت اكٹھى كرو، پھر اسى دولت سے صدقه وقربانى دو، حج كرو اور رمضان ميں هر سال عمرے كے ليے چلے جايا كرو. همارا سارا زور rituals پر هے اور دين اگر دنيا ميں پامال هے تو هوتا رهے، همارى بلا سے! تصور كريں اگر آج صرف ايك سال ميں حج پر اكٹھے هونے والے افراد هى سروں پر كفن باندھ كر غلبه دين كى جدوجهد كے ليے ميدان ميں كود پڑيں تو دنيا كو بدل سكتے هيں. مگر افسوس، صد افسوس!:

ره گئى رسمِ اذاں روحِ بلالى نه رهى

 فلسفه ره گيا    تلقينِ غزالى نه رهى!

وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ:   «اور خواه مشركوں كو يه كتنا هى ناگوار هو!»

ظاهر هے مشركين كب چاهيں گے كه دنيا ميں اسلام كا غلبه هو، نظام توحيد كا نفاذ هو اور الله كى حكومت بالفعل قائم هو جائے. يهاں پر مُشْرِكُوْنَ كا لفظ خاص طور پر لائقِ توجه هے. اس سے مراد صرف وه مشركين هى نهيں هيں جو بتوں اور ديوى ديوتاؤں كو پوجتے هيں اور اُميد ركھتے هيں كه وه الله كے حضور ان كى سفارش كر ديں گے، بلكه سب سے بڑے مشرك تو وه هيں جو دنيا ميں خدائى كے دعوے دار بنے بيٹھے هيں، جو نمرود اور فرعون كے نقشِ قدم پر چل رهے هيں اور جن كا دعوى هے كه اقتدار اعلى (sovereignty) كے مالك هم هيں. فرعون بھى تو يهى كهتا تھا: ﴿أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي﴾ {الزخرف: 51} كه ديكھو! كيا يه مصر كى حكومت ميرى نهيں هے؟ اور كيا يه پورا نهرى نظام ميرے تابع نهيں هے؟ تو فرعون كے اس دعوے اور «عوام كى حاكميت» كے نعرے ميں كيا فرق ره گيا؟ صرف يهى نا كه وهاں اقتدار كا دعوى كرنے والا ايك فرد تھا اور يهاں پورى قوم حاكميت كى دعوے دار هے. اب ظاهر هے اگر اس ماحول ميں آپ الله كى حاكميت كا نعره لگائيں گے اور الله كے نظامِ عدل وقسط كے قيام كے مشن كو لے كر آگے بڑھنا چاهيں گے تو «اپنى حاكميت» كے يه دعوے دار خم ٹھونك كر آپ كے مقابلے ميں آ كھڑے هوں گے. اس كے بعد بھى اگر آپ اپنے مؤقف پر قائم رهيں گے تو ان سے آپ كا تصادم ناگزير هو جائے گا اور آپ كو مال وجان كى قربانى كى صورت ميں اپنے اس مؤقف كى قيمت چكانا پڑے گى. چنانچه اب اگلى آيات ميں اسى صورتِ حال كا ذكر كيا جا رها هے:

UP
X
<>